بھارتی انتخابات اور مسلمان
5 مئی 2009بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی حالت خواہ بہتر نہ ہو اور بعض مبصرین کے مطابق آزادی کے بعد سے اب تک کی تمام حکومتوں نے انہیں نظر انداز کیا ہو لیکن انتخابات کے دوران انہیں نظراندازکرنا کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 14.5فیصد یعنی تقریباً ایک سو ساٹھ ملین ہے۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 102 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹ قابل لحاظ تعداد میں ہیں۔ 26 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان 30 فیصد ہیں اور 14 سیٹیں وہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
مسلمان بالعموم انتخابات میں اپنی قوت، پسندیدگی یا ناراضگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ شمالی بھارت میں سیاسی لحاظ سے کانگریس کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی ناراضگی ہے۔ انیس سو نواسی کے بھاگلپور فسادات کے بعد بہار میں اور 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مسلم ووٹروں نے کانگریس سے ناراض ہوکر اس کے خلاف جو ووٹ دیا اس کی مار سے وہ ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے۔
مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کے مدنظر تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو لبھانے کے لئے طرح طرح کے وعدے کررہی ہیں۔ کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں حسب روایت اس بار بھی مسلمانوں کے لئے کئی وعدے کئے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی اعلی فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن اور مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کہتے ہیں کہ بھارتی آئین نے مسلمانوں کو جو حقوق دئے ہیں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اس کو نافذ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے دفتر میں اپنی نگرانی میں ایک شعبہ بھی قائم کیا ہے جو مسلمانوں سے متعلق امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے اس بار اپنے انتخابی منشور میں وقف ڈیولپمنٹ پر زور دیا ہے اور ملک میں ایک یونانی یونیورسٹی بنانےکا بھی وعدہ کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کے وعدے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشور میں ڈھیر سارے وعدے کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بالعموم انہیں یہ وعدے یاد نہیں رہتے ۔ایسے میں مسلمانوں سے کئےجانے والے وعدوں کے حشر کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن مسلم ووٹوں کی مجبوری نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی مسلمانو ں کے لئے وعدے کرنے پر مجبور کردیا۔
پارٹی نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ مسلمانوں کی مدد کے بغیر اقتدار تک پہنچنا مشکل ہوگا۔ اسی لئے اس نے اپنے انتخابی منشور میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ باب مختص کیا ہے۔ بی جے پی کے قومی ترجمان ایس ایس اہلوالیہ سے جب ہم نے پوچھا کہ ان کی پارٹی ایک طرف مشترکہ قومی شناخت کی بات کرتی ہے لیکن وہ بھی دیگر سیکولر پارٹیوں کی طرح مسلمانوں کو لبھانے میں پیچھے نہیں ہے تو ان کی دلیل تھی کہ مسلمانوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کسی دوسرے ملک میں ہیں اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے بی جے پی کوشش کررہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے دوران 2002 مےں ہوئے گجرات کے مسلم کش فسادات مسلمانوں کے ذہنوں پر بری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا کہ آخر وہ فسادات کے خوف کو مسلمانوں کے ذہنوں سے کس طرح زائل کرسکیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ فسادات صرف بی جے پی کے دور میں ہی نہیں ہوئے بلکہ کانگریس کے زمانے میں فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے اور ایسی جگہوں پر بھی فسادات ہوئے ہیں جہاں بی جے پی یا جن سنگھ کا نام و نشان نہیں تھا لیکن بعض پارٹیاں بی جے کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔
گو کہ اس الیکشن میں مسلمانوں کے رجحان ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے لیکن مسلم مذہبی جماعتوں اورسماجی تنظیموں نے اس الیکشن کی اہمیت کے مدنظر ان کے لئے رہنما خطوط جاری کئے ہیں۔ان ہدایات کے مطابق مسلم ووٹروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں ایسے مسلم امیدوار کی حمایت کریں جس کی پوزیشن مضبوط ہو خواہ وہ کسی سیکولر پارٹی کا امیدوار ہو یا آزاد امیدوار۔ دوسرے ان سیکولر امیدواروں کی حمایت کی جائے جن کے امیج بھی اچھے ہوں اور جن کے جیتنے کے امکانات بھی زیادہ ہوں۔
2009 کے انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ کم از کم 22 چھوٹی بڑی مسلم سیاسی پارٹیاں آسام سے لے کرتملناڈو تک قسمت آزما رہی ہیں لیکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے ان سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ الٹا نقصان ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے بیشتر پارٹیوں کے امیدوار نہ صرف ہار جائیں گے بلکہ ان کی ضمانت بھی ضبط ہوسکتی ہے۔
مسلم ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے گو کہ ان کی تعداد 76ہونی چاہئے لیکن آزادی کے بعد یہ اب تک 46 سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ بہر حال 2009 کے عام انتخابات میں عام مسلمان اپنی سلامتی کے علاوہ تعلیم اور روزگار پر نئی حکومت کی توجہ چاہتے ہیں۔
جامع مسجد کے علاقے کی رہنے والی صفیہ کہتی ہیں کہ مسلمانو ں کی فلاح و بہبود کے لئے ابھی تک کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی جب کہ ڈاکٹر فخر عالم کہتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو صرف مہرا بناتی ہیں۔ دوسری طرف حکیم سید احمد خان کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس حکومت نے سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کیا ہوتا تو اس سے کچھ امید بندھتی لیکن اس نے صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو اتر پردیش اور ملک کی تمام ریاستوں کے اردو بولنے والے علاقوں میں اردو اسکول کھولنے چاہئیں اور جو اسکول موجود ہیں ان کی خاطر خواہ مالی مدد کرنی چاہئے۔