بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لاپتہ ہوتے مرد شہری
28 جنوری 2016بیگم جان کا بیالیس سالہ شوہر غلام جیلانی گزشتہ نومبر سے لاپتہ ہے۔ اس کے کنبے کا کہنا ہے کہ جیلانی کو بھارتی فوج نے اغوا کیا ہے۔
بیگم جان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے خوف کا اظہار یوں کیا، ’’اگر بھارتی فوج نے میرے شوہر کو اٹھایا ہے تو ضرور اسے ہلاک کر دیا گیا ہو گا۔‘‘ تاہم اڑتیس سالہ اس لاچار خاتون کی آنکھوں میں ایسی امید اب بھی برقرار ہے کہ اس کے بچوں کا باپ واپس ضرور آئے گا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات فوجیوں پر کئی عشروں سے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ جعلی پولیس مقابلوں میں مقامی لوگوں کو ہلاک کرتے رہے ہیں تاکہ وہ ترقی اور انعامات حاصل کر سکیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ بھارتی کشمیر میں 1989ء سے لے کر اب تک کم ازکم بھی آٹھ ہزار افراد لاپتہ ہوچکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر نوجوان مقامی مسلمان باشندے تھے۔
اگرچہ گزشتہ دہائی میں ایسے واقعات کے رونما ہونے میں کمی نوٹ کی گئی ہے لیکن حال ہی میں اس طرح کے کیس ریکارڈ کیے جا رہے ہیں، جو پریشانی کا باعث تصور کیے جا رہے ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے قریب ہی واقع دلکش اور خوبصورت دردپورہ نامی گاؤں شورش کے زمانے میں بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ غلام جیلانی سترہ نومبر کو اسی گاؤں میں اُس وقت لاپتہ ہوا تھا، جب وہ اپنے ایک ساتھی مزدور اور ایک بھارتی فوجی کے ساتھ گھر سے کہیں گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ غلام جیلانی کن حالات میں لاپتہ ہوا، آزادانہ طور پر اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔
حسینہ بھی شوہر کی واپسی کی منتظر
دس بچوں کی کفالت کرنے والی بیگم جان اپنے کچھ رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی تلاش میں وہ ایک اور کمشیری خاتون حسینہ تک جا پہنچی۔ حسینہ کا شوہر محمد علی بھی اُنہی دنوں میں لاپتہ ہوا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ سابق باغی علی محمد بھی اسی فوجی اہلکار کے ساتھ کہیں نکلا تھا، جس کے ساتھ غلام جیلانی گیا تھا۔ علی محمد بھی آج تک واپس نہیں لوٹا۔
تین بچوں کی ماں حسینہ نے پرنم آنکھوں کے ساتھ اے ایف پی کو بتایا، ’’میں ہر لمحہ اپنے شوہر کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ واپس آ جائیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شوہر کی جدائی کی وجہ سے انہیں نہ صرف جذباتی دھچکا پہنچا ہے بلکہ وہ اور ان کے بچے بھی لاوارث ہو کر رہ گئے ہیں۔
مقامی پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار اعجاز احمد بھٹ کے مطابق ایک بھارتی فوجی کو گرفتار کر کے ریمانڈ پر بھیجا جا چکا ہے۔ ان کے بقول اس فوجی پر اغوا کے الزام میں فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے۔
اسی طرح پولیس ایک ایسے ٹیکسی ڈرائیور کو بھی حراست میں لے چکی ہے، جس نے اس فوجی اور دیگر تین افراد کو ایک عسکری کیمپ میں اتارا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق ان الزامات کے تناظر میں وہ اپنی سطح پر بھی تحقیقات کر رہی ہے۔
کوئی مدد نہیں ملتی، کشمیریوں کا الزام
متاثرہ کشمیری افراد کا کہنا ہے کہ نہ تو پولیس ان کی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی فوج۔ بیگم جان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد سے پندرہ مرتبہ کورٹ میں بھی جا چکی ہے لیکن اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔
بیگم جان نے مزید کہا، ’’سن 1992 میں میرے والد کو بھی اسی طرح غائب کر دیا گیا تھا۔ ان کا بھی ابھی تک کوئی پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
ادھر بھارتی حکومت کشمیر میں لوگوں کے اغوا یا غائب کر دیے جانے سے متعلق دعووں کو مسترد کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق ان میں سے زیادہ تر افراد عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان جاتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات فوجیوں کو سن 1990 میں متعارف کرائے گئے ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ‘ کا سہارا بھی حاصل ہے، جس کے تحت فوج کو قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ مشتبہ افراد کو ہلاک اور ان کی جائیداد ضبط کر سکتی ہے۔