1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ’نکُوسا‘ یعنی ’انچاہی‘ نام کی لڑکیوں کو نام دینے کی مہم

22 اکتوبر 2011

اکیسویں صدی میں جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ خلاء تک پہنچ گئی ہیں، دنیا کے کچھ خطوں میں آج بھی لڑکی کی پیدائش پر نہ صرف افسوس کیا جاتا ہے بلکہ اسے منحوس سمجھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/12wd2
تصویر: AP

اس کی جیتی جاگتی مثال بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے ضلع ساترا میں رہنے والی وہ دو سو سے زائد لڑکیاں ہیں جنہیں پیدائش کے وقت ان کے والدین نے 'نکُوسا' یعنی 'انچاہی' کا نام دیا تھا۔

تاہم اب ایک حکومتی مہم کے ذریعے ان میں سے ڈیڑھ سو بچیوں کو اس اختتام ہفتہ پر نیا نام دیا جائے گا۔  اس مہم کا مقصد اولاد کے معاملے میں صنفی امتیاز ختم کرنا ہے۔ بھارت میں اکثر والدین پیدائش سے قبل یہ معلوم ہونے پر کہ دنیا میں نیا آنے والا بچہ ایک لڑکی ہے، اسقاط حمل کرا دیتے ہیں۔ اسی وجہ بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔

Flash-Galerie Indien Mutter und Kind
بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے.تصویر: AP

مہم کے ایک اہم رکن ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر بھگوان پوار نے بتایا ہے کہ اب تک نکُوسا نام کی  222 لڑکیوں کی شناخت کر لی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بیٹے کی پیدائش کے منتظر والدین دوسری، تیسری یا چوتھی بیٹی کی پیدائش پر اس کو ذاتی نام دینے کے بجائے اسے 'نکُوسا' کہ کر پکارتے ہیں۔ جہیز کی روایت کی وجہ سے ان کو مالی بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس بیٹوں کو خاندان کا وارث اور سہارا سمجھا جاتا ہے۔

پوار نے مزید بتایا کہ "اس روایت نے ان بچیوں پر ایسا نفسیاتی اثر چھوڑا ہے کہ اب یہ نام تبدیل کرنے کترا اور گھبرا رہی ہیں۔"

ناموں کی تبدیلی کے بعد ان بچیوں کو حکومت کی طرف سے سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے اور ان کے اسکول کے تمام ریکارڈ بھی تبدیل کیے جائیں گے۔

Indien Mango Mädchen Frucht Obst Flash-Galerie
ناموں کی تبدیلی کے بعد ان بچیوں کو حکومت کی طرف سے سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے اور ان کے اسکول کے تمام ریکارڈ بھی تبدیل کیے جائیں گے.تصویر: picture-alliance/dpa

'سیو گرل چائلڈ' نامی چیریٹی کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن سُدھا کنکاریا کا کہنا تھا کہ ساترا کی یہ لڑکیاں تعصب اور لڑکیوں کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اپنے اس نام کی وجہ سے یہ بچیاں ساری خود اعتمادی سے محروم اور شرمندگی کا شکار رہی ہیں۔ کنکاریا اُمید کرتی ہیں کہ وہ اس مہم کی مدد سے ہزاروں سال پُرانی اس روایت کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر سکیں گی۔

گزشتہ ماہ یعنی ستمبر 2011ء میں اس مہم کے تحت سب سے پہلے اپنا نام بدلنے والی آٹھ سالہ نکُوسا، جو اب ایشوریا ہے، کہتی ہے کہ اسے اپنا نیا نام بہت پسند ہے۔ ’’میری سہیلیاں اب بھی کبھی کبھار مجھے نکُوسا بلاتی ہیں لیکن میں ان سب کو یاد دلاتی ہوں کہ میرا نام ایشوریا ہے۔‘‘

رپورٹ: عائشہ حسن

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید