1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں غربت کی وجہ ’کرپشن‘

عاطف بلوچ4 اکتوبر 2013

بھارتی عوام ایک طرف تو مہنگائی میں اضافے اور کرنسی کی قدر میں تیزی سے ہوتی کمی جیسے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ترقیاتی منصوبہ جات میں بدعنوانی کا مسئلہ بھی بھوت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/19tfJ
تصویر: AP

ابھی چند روز قبل ہی بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے ایک نمایاں سیاستدان لالو پرساد یادو کو بدعنوانی کے مقدمے کے تحت پانچ برس کی سزائے قید سنا دی تھی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف یادو کی پارلیمانی رکنیت ختم ہو گئی بلکہ وہ آئندہ چھ برس تک انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ تاہم حکومت کا ارادہ ہے کہ ایک خصوصی آرڈیننس کے ذریعے یادو اور بدعنوانی کے مختلف کیسوں میں سزا یافتہ دیگر سیاستدانوں کی سزائیں معاف کرتے ہوئے انہیں سیاست میں رہنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

Lalu Prasad
بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادوتصویر: picture alliance/AP Photo

دوسری طرف حکمران کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے اہم سیاستدان راہول گاندھی نے ایسے کسی بھی آرڈنینس کی مخالفت کر دی ہے۔ کانگریس پارٹی کی طرف سے آئندہ انتخابات میں وزیر اعظم کے ممکنہ امیدوار راہول گاندھی کے بقول، ’’اگر آپ ملک میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں تو چاہے وہ کانگریس ہو یا (اپوزیشن کی مرکزی سیاسی جماعت) بھارتیہ جنتا پارٹی، انہیں ایسے چھوٹے چھوٹے سمجھوتوں کو مسترد کرنا ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم ایسے معمولی سمجھوتے کریں گے تو ہم ہر معاملے پر سمجھوتہ کر لیں گے۔‘‘

ناقدین کے خیال میں اس مخصوص معاملے پر راہول گاندھی کی ذاتی مخالفت کی وجہ عوام میں بدعنوانی کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ ہے۔ راہول کے والد اور 1984ء تا 1989ء تک بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی اپنی پارٹی کے اندر ایسے ’طاقتور عناصر‘ کے خلاف تھے، جو بالخصوص ترقیاتی فنڈز میں خرد برد کے حوالے سے لچکدار مؤقف رکھتے تھے۔

نئی دہلی میں ’گلوبل پولیٹیکل اکنامی‘ کی استاد اشوَنی شرما کے بقول بھارت میں ’کالے دھن‘ اور بدعنوانی کا خاتمہ ناممکن ہے کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں اسے اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتی ہیں۔‘‘ نیوز ایجنسی آئی پی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے اشوَنی نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو بدعنوانی کے خلاف عملی اقدامات لینے کے لیے کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ چوزوں کی نگرانی کے لیے لومڑی کو تعینات کر دینا۔

بنگلور میں واقع ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ‘ سے منسلک فنانس اینڈ کنٹرول کے پروفیسر آر۔ واڈیا ناتھ کی طرف سے 2012ء میں شائع کیے جانے والے ایک تین سالہ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی عوام معمولی حکومتی خدمات حاصل کرنے کے لیے سالانہ 70 بلین ڈالر کی رشوت ادا کرتے ہیں۔ آئی پی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں رشوت کی لین دین دراصل ٹیکس نظام کے متوازی کام کرتا ہے۔

Rahul Gandhi
حکمران کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان راہول گاندھیتصویر: AP

بھارتی فنانس منسٹری کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2011 اور 2012 کے دوران 1.2 بلین آبادی رکھنے والے اس ملک میں صرف تین ملین افراد نے سالانہ انکم ٹیکس ادا کیا۔ ان میں سے نوے فیصد ایسے تھے، جنہوں نے سات ہزار یا اس سے بھی کم رقم بطور انکم ٹیکس جمع کرائی۔

بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جوگندر سنگھ کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے نتیجے میں زیادہ تر متاثر ہونے والے افرد کا تعلق غریب طبقے سے ہے، جنہیں ہر حکومتی خدمت حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ سنگھ کے بقول، ’’بھارت جیسا ملک جہاں قدرتی اور انسانی وسائل کی بہتات ہے، وہاں غربت کی ایک بڑی وجہ بدعنوانی ہی ہے۔‘‘