1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں خواتین پر تشدد سے متعلق نئی بحث

19 جنوری 2011

بھارتی سفارت کاروں جیسے اعلیٰ افسران کی طرف سے خواتین اور بیویوں کے خلاف مبینہ زیادتیوں اور تشدد کے یکے بعد دیگرے کئی واقعات کے بعد بھارت میں عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کا معاملہ ایک بار پھر بحث کا موضوع بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/zzfs
تصویر: AP

سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے باوجود بھارتی سماج کے سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی ہے اور کیا سماج اب بھی عورتوں کو برابری کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

برطا نیہ میں سینئر بھارتی سفارت کارانل ورما کے ہاتھوں اپنی بیوی کی پٹائی کے واقعہ کے بعد عورتوں کے ساتھ زیادتی کا تازہ واقعہ نیویارک میں پیش آیا ہے جہاں اقوام متحدہ میں بھارتی مشن میں فرسٹ سکریٹری الوک رنجن جھا کو ایک عورت کے ساتھ”بدتمیزی“ کے الزام میں وطن واپس بلالیا گیا ہے۔

Indien Frau vor Parlament in New Delhi Flash-Galerie
تصویر: AP

بھارت میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ بھارت کے تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق40 فیصد سے زائد عورتوں نے یہ بات تسلیم کی کہ انہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں مار کھانی پڑی ہے۔یہ سروے ملک کے 28 ریاستوں میں کیا گیا جس میں 1.25لاکھ سے زائدخواتین سے سوالات پوچھے گئے تھے۔سروے کے مطابق جن 75000 ہزار مردوں سے سوالات پوچھے گئے ان میں سے 51 فیصد سے زائد نے کہا کہ انہیں اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے میں کوئی خرابی یا قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے۔

یہاں آل انڈیا ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن (AIDWA) کی جنرل سکریٹری سدھا سندر رمن نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں عورتوں پر تشدد کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ انہیں نہ صرف گھر کے اندر بلکہ گھر کے باہر اور کام کے مقامات پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Frauenhandel in Indien
تصویر: AP

عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حکومت کے تمام دعوے غلط ثابت ہورہے ہیں اور سماجی ماحول بھی عورتوں کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ دراصل بھارت اب بھی مردوں کے غلبے والا سماج ہے۔سدھا سندر رمن کا کہنا ہے کہ بھارتی سماج کی سوچ میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہاں جو عورتیں گھر سے باہرجاکر کام کرتی ہیں انہیں گھر سنبھالنے اور گھریلو کام کاج کا دوہرا بار بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

اس کی وجہ سے ان پر اتنا زیادہ بوجھ اور دباو پڑجاتا ہے کہ حالات بعض اوقات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورتیں اگر اقتصادی خود انحصاری کی طرف قدم بڑھاتی ہیں تو شوہروں کے ساتھ تصادم کی نوبت آجاتی ہے کیوں کہ مرد اسے اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ سروے میں تقریباَ54 فیصد خواتین کواپنے شوہر کے ہاتھوں مار کھانے پر کوئی اعترا ض نہیں تھا۔ وہ اس کی کئی طرح کی تاویلات پیش کرتی ہیں۔ سدھا سندرم کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ اگر انہیں میکے کی طرف سے کسی طرح کی تائید حاصل نہ ہو تو وہ کہیں کی بھی نہیں رہ جاتی ہیں۔ یہاں اکیلی خاتون کو کوئی کرائے پر مکان بھی نہیں دیتا دوسری طرف حکومت کی طرف سے ایسی عورتوں کی مدد کا کوئی مناسب نظام قائم نہیں ہے۔

Frauen der Swadhyaya Parivar Bewegung folgen aufmerksam der spirituellen Führerin Jaishree Didi in Ahmadabad, Indien
تصویر: AP

ایک تازہ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اپنے شوہر کے ہاتھوں مار پیٹ کا شکار ہونے والی عورتوں کے بچے پانچ سال کی عمرتک پہنچنے سے پہلے ہی دیگر بچوں کے مقابلے 21 گنا زیادہ موت کا شکار ہوتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت میں جن18 لاکھ بچیوں کی موت ہوئی اس کی ایک وجہ ان کی ماؤں کے ساتھ تشدد کے واقعات رہے ہیں۔

عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت نے 2005 میں ایک قانون بھی بنایا تھا لیکن اس سے عورتوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی ہے۔ سدھا سندر رمن کہتی ہیں کہ خواتین تنظیموں کی جدوجہد او ر دباؤ کے بعد حکومت نے قانون تو بنادیا لیکن اس کا نفاذ ابھی تک کاغذات تک ہی محدود ہے۔انہوں نے کہا کہ بیشتر ریاستوں نے اسے اپنے یہاں ابھی تک نافذ بھی نہیں کیا ہے جب کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر اپنا پلا جھاڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔

سدھاسندررمن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی عورتوں کو گھریلو تشدد سے بچانا چاہتی ہے تو اسے تمام قوانین کو خلوص اور سختی سے نافذ کرنے ہوں گے۔ اس میں سماجی، اقتصادی اور قانونی اصلاحات کرنی ہوں گی اور مساوات اور جمہوری سماج کے قیام کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے ورنہ تعلیم ‘ دولت اور اعلی سماجی حیثت کے باوجود پرومیتا ورما جیسی عورتیں انل ورما جیسے سفارت کار شوہروں کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی رہیں گی۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں