1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں حکومت سازی کی سرگرمیاں تیز

افتخار گیلانی، نئی دہلی17 مئی 2009

بھارت میں عام انتخابات کےنتائج آچکے ہیں۔ اب ساری توجہ نئی حکومت کی تشکیل پر ہے اور سب سے بڑی پارٹی کے طور پردوبارہ سامنے آنے والی کانگریس پارٹی کے اعلی فیصلہ ساز ادارے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتوار کو ہوا۔

https://p.dw.com/p/HsKW
کانگریس کی فتح کا جشنتصویر: AP

بھارت میں عام انتخابات کے تمام نتائج آچکے ہیں۔ اب ساری توجہ نئی حکومت سازی پر مرکوز ہوگئی ہے۔اس سلسلے میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پردوبارہ ابھر کر سامنے آنے والی حکمراں کانگریس پارٹی کے اعلی ترین فیصلہ ساز ادارے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتوار کو ہوا۔

کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں حکومت سازی اور نئی وزارت کی تشکیل کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا گیا اور متحدہ ترقی پسند اتحاد یعنی یو پی اے کو دوبارہ حکومت کا موقع دینے کے لئے عوام کا شکریہ اداکیاگیا۔ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ پیر کو صدر پرتبھا پاٹل سے ملاقات کرکے اپنا استعفی پیش کریں گے اورکانگریس پارلیمانی پارٹی منگل کو ڈاکٹر سنگھ کو دوبارہ اپنا رہنما منتخب کرے گی۔

Indien: Manmohan Singh, Sikh und Finanzpolitiker als Ministerpräsident vereidigt
من موہن سنگھتصویر: AP

2004 کے برعکس اس مرتبہ یوپی اے کو حکومت سازی میں کوئی دشواری نہیں آئے گی اور نہ ہی اسے چھوٹی پارٹیوں کا دباؤ جھیلنا پڑے گا۔ گوکہ یوپی اے اتحادکو 262 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں لیکن سماج وادی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور جنتا دل سیکولر نے اسی اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس سے اسے حکومت سازی کے لئے ضروری 272 سے کہیں زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔

یو پی اے اتحاد پچھلی بار کے مقابلے اس مرتبہ زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آیا ہے۔ تاہم کانگریس پارٹی نے تمام سیکولر پارٹیوں سے تعاون کی اپیل کی ہے ۔

انتخابات میں شکست کے بعداپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر کشمکش ہے۔کوئی بھی اس شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ تاہم بی جے پی کے قریبی حلقوں، سیاسی تجزیہ کاروں اور اخبارات کے مطابق بی جے پی کو ورون گاندھی کے مسلم مخالف بیانات اور گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ پارٹی صدرراج ناتھ سنگھ کی کرسی جانا بھی طے ہے جس کے بعد نئے صدر کے لئے بھی خاصی کھینچا تانی ہوگی۔

Der Politiker der BJP L K Advani bei einer Wahlkampfveranstaltung in Allahabad
بی جے پی کے رہنما ایل کے اڈوانی انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: UNI

لیکن نئی حکومت سازی سے پہلے ہی سری لنکا کا مسئلہ یو پی اے حکومت کے لئے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آگیا ہے۔خیال رہے کہ تامل ناڈو میں سری لنکا کے تاملوں کا مسئلہ ایک اہم انتخابی موضوع رہا تھا جب کہ ریاست کی حکمراں جماعت ڈی ایم کے اس بار بھی یو پی اے کی سب سے بڑی حلیف کے طور پرابھری ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات کو فروغ دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ ا س کے ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں بھی کمی آئے گی ۔

اس دوران یو پی اے اگلے سو دنوں کے لئے ایک پروگرام بنارہی ہے جس میں کساد بازاری سے متاثر صنعت کو رعایت دینے، انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے کے مطابق غریبوں کو تین روپے فی کلوگرام چاول دینے جیسے پروگرام کو حتمی شکل دیا جارہا ہے۔