1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں بڑے نوٹ ختم کرنے کا فیصلہ نقصان دہ ہو گا؟

27 نومبر 2016

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ پراعتماد ہیں کہ بڑے نوٹوں کو ختم کرنے کی حکومتی پالیسی سے بھارت کی اقتصادی حالت بہتر ہو گی۔ کئی ناقدین کے بقول یہ قدم بھارتی معیشت کے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2TJxj
Indien Ansturm auf Bank Umtausch von Rupien Scheinen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Nath

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کے روز کہا کہ ان کی اس نئی پالیسی کے نتیجے میں بھارت طویل المدتی بنیادوں پر اپنی معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اپنے ماہانہ ریڈیو خطاب میں مودی نے کہا کہ دنیا اس وقت بھارت کو دیکھ رہی ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی کے باعث اپنی معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔

’پاکستان میں ایک اور پانچ ہزار کے نوٹ منسوخ کیے جائیں‘

پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ ختم کرنے کا اعلان

’پاکستان میں ایک اور پانچ ہزار کے نوٹ منسوخ کیے جائیں‘

بھارت: ’سب سے تیز رفتار شرح نمو والی بڑی معیشت‘

مودی نے مزید کہا، ’’دنیا کو اس حوالے سے سوال یا شک ہو سکتے ہیں لیکن بھارت کو اپنے لوگوں پر اعتماد ہے۔ ہمارا ملک اس آگ سے سونے کی طرح چمکتا ہوا نکلے گا۔ اس کی وجہ عوام پر ہمارا اعتماد ہے۔‘‘ بھارت میں ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو ختم کرنے کا مقصد ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی کا خاتمے کی ایک کوشش تھا لیکن اب ایسے اشارے سامنے آ رہے ہیں کہ اس فیصلے سے ملکی اقتصادیات متاثر ہو سکتی ہے۔

بھارت میں کئی اقتصادی تجزیہ نگاروں نے کہا تھا کہ ملک میں ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو ختم کرنے سے بدعنوانی کے  خاتمے کے لیے جاری حکومتی مہم کو فائدہ ہو گا۔ تاہم اب صورتحال کچھ مختلف ہوتی نظر آ رہی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت میں بڑے نوٹوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے مارکیٹ میں کیش کی کمی واقع ہو چکی ہے، جس کے باعث روزمرہ کا کاروبار متاثر ہونے لگا ہے۔

بھارت ایک ایسا ملک ہے، جہاں روزمرہ کا کاروبار نقد رقوم کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ تقریباﹰ تین ہفتے قبل بھارتی وزیر اعظم نے اچانک اعلان کیا تھا کہ ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹ ختم کیے جا رہے ہیں اور جن کے پاس یہ نوٹ ہیں، وہ بینکوں سے انہیں تبدیل کرا لیں۔ اسی کے ساتھ بھارت میں دو ہزار روپے کے نئے نوٹوں کا اجراء بھی کر دیا گیا تھا۔ یوں بھارت میں چلنے والی چھاسی فیصد کرنسی ختم ہو گئی تھی۔

اس صورتحال میں متعدد بینکوں کی اے ٹی ایم مشینیں خالی ہیں جبکہ بڑے نوٹ تبدیل کرانے والے افراد کی لمبی لمبی قطاریں بینکوں کے باہر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس تبدیلی سے نہ صرف کاروباری افراد متاثر ہوئے ہیں بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں بھی ایک بھونچال آ چکا ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ نوٹ تبدیل نہیں کرا سکتے کیونکہ بینکوں کے پاس نئے نوٹ ہیں ہی نہیں۔

سابق وزیر اعظم اور ماہر معاشیات منموہن سنگھ نے گزشتہ ہفتے ہی پارلیمان کو بتایا تھا کہ موجودہ حکومت کے اس فیصلے کے باعث ملکی اقتصادیات کو رواں برس کے دوران دو فیصد کا نقصان ہو گا کیونکہ اس پلان پر عملدرآمد سے متعلق انتظامی معاملات حل نہیں کیے جا سکے۔

دوسری طرف کئی ماہرین کے بقول بھارتی حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں ملکی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے، اس بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ سیاسی تجزیہ نگار دیودن چوہدری نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’اس نئی پالیسی کے نتائج آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے ہیں۔ آئندہ ماہ اس حوالے سے انتہائی اہم ہو گا۔‘‘