1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں انسانی زندگیوں سے کھیلتے نجی ہسپتال

شمشیر حیدر مرلی کرشن
23 نومبر 2017

ایک بھارتی نجی ہسپتال میں ڈینگی بخار کے باعث ہلاک ہونے والی سات سالہ بچی کے والد نے ہسپتال کی جانب سے بنایا گیا اٹھارہ لاکھ کا بِل سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا تھا، جس کے بعد بھارت میں صحت عامہ کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2o8y0
Indien Staatliches Krankenhaus in Chandigarh
تصویر: Reuters/A. Verma

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے نواحی علاقے گڑگاؤں کے ’فورٹِس میموریل ریسرج انسٹیٹیوٹ‘ نامی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ڈینگی بخار کے باعث زیر علاج ادیا سنگھ نامی سات سالہ بچی ستمبر میں دم توڑ گئی تھی۔ ادیا سنگھ کے والد کو ہسپتال نے ان کی بیٹی کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کا بل بھیجا جو اٹھارہ لاکھ بھارتی روپے (قریب پچیس ہزار امریکی ڈالر) تھا۔

نئی دہلی میں اسموگ سے شہریوں کی ’زندگیاں مختصر ہوتی ہوئی‘

پاکستان میں دل کے امراض انسانی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ

بیس صفحات پر مشتمل اس بل میں ادیا کے علاج کے لیے استعمال کی گئی ادویات اور میڈیکل ٹیسٹوں کی طویل فہرست بھی شامل تھی۔ ڈینگی بخار میں مبتلا ادیا کے خون میں شوگر کی سطح جاننے تک کے ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ اس بل کے مطابق دو ہفتوں کے دوران ادیا سنگھ کے علاج کے لیے ساڑھے چھ سو سرنجیں اور پندرہ سو دستانے استعمال کیے گئے۔

پرائیویٹ ہسپتال کی جانب سے دیا گیا یہ بل ادیا کے والد جیانت سنگھ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا، جس کے بعد بھارت میں عوامی سطح پر نجی ہسپتالوں کے اس طرز عمل اور ملک میں صحت عامہ کی سہولیات پر شدید بحث چھڑ گئی۔ کئی افراد نے اس نجی ہسپتال پر غفلت برتنے اور لالچ کے الزامات عائد کیے۔ تاہم ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سات سالہ بچی کے علاج کا عمل انتہائی پیچیدہ تھا۔

بھارتی سوشل میڈیا پر جاری اس بحث میں لوگوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور آخر کار ملکی وزیر اعظم نریندر مودی نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں ’تمام ضروری اقدامات‘ کرنے کا اعلان بھی کیا۔

اس جنوبی ایشیائی ملک میں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی ناقص سہولیات کے باعث عوام کی بہت بڑی تعداد علاج کے لیے ملک کے طول و عرض میں پھیلے نجی ہسپتالوں کے نیٹ ورک کا رخ کرتی ہے۔ نجی ہسپتال مریضوں سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک نجی ہسپتال سے وابستہ گائناکالوجسٹ پونیت بیدی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’فائیو اسٹار ہسپتالوں میں نہ تو شفافیت ہے اور نہ ہی کسی قسم کے کوئی ضوابط۔ بھارت میں یہ معاملہ ایک نئی حقیقت بن چکا ہے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے ملکی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘‘

ہنسی کے بارے میں چھ حقائق

پاکستان میں ڈینگی بخار سے مزید سات اموات

معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ڈی ڈبلیو سے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے نجی ہسپتالوں سے منسلک کئی ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں منافع کمانے کے لیے کئی طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے رائج ہیں۔ ان ڈاکٹروں کے مطابق بڑے نجی ہسپتال دوسرے ہسپتالوں کو مریض ’ریفر‘ کرنے پر اس مریض سے وصول کردہ رقم میں سے کچھ حصہ بطور رشوت بھی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں دوا ساز کمپنیاں بھی طبی نسخوں میں اپنی ادویات تجویز کروانے کے لیے رشوت دیتی ہیں۔ یوں طبی نسخوں میں غیر ضروری ادویات بھی مریضوں کو تجویز کی جاتی ہیں۔

گزشتہ برس بھارتی تحقیقاتی اداروں نے نجی ہسپتالوں کے اہم ڈاکٹروں کا ایک نیٹ ورک پکڑا تھا جو ’کِڈنی ٹرانسپلانٹ‘ کے غیر قانونی دھندے میں ملوث تھے۔ سن 2015 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ریاست تامل ناڈو میں ایک ڈاکٹر کی غلفت کے باعث بینائی کھو دینے والے نوجوان کو بیس ملین بھارتی روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔