1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت مستقبل میں ایئرٹریفک کا مرکز بن سکتا ہے: ماہرین

9 اکتوبر 2009

ایشیا پیسیفک ویکس دو ہزار نو ایونٹ کے سلسلے میں برلن کے ٹاون ہال میں نو اکتوبر کو ایئر ٹریفک کے موضوع پر ایک پینل مباحثہ ہوا جس میں ایویئشین ماہرین نے فضائی ٹریفک کے حوالے سے بھارت کو مستقبل کا ایک اہم مرکز قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/K3HK
تصویر: picture-alliance/ dpa

لفتھانزا جیسی یورپی فضائی کمپنیاں بھارت کو ایئر ٹریفک کے حوالے سے مستقبل کا ہب یعنی ایک اہم مرکز سمجھتی ہیں- لیکن بھارت کے ایئر پورٹس میں بنیادی ڈھانچے یا انفراسٹرکچر کے مسائل بھی ہیں۔

اس حوالے سے لفتھانزا کے سابق ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیاء ویرنر ہیزن نے بتایا کہ بھارتی فضائی اڈوں پر انفراسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچے کی کمی کے باوجود ایئر ٹریفک کے حوالے سے مستقبل اچھا ہے۔ " سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کے ایئر پورٹس میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے- تاہم اس میں زبردست مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی- حیدر اباد اور بنگلور میں نئے فضائی اڈے کمیشن ہوچکے ہیں جبکہ نئی دہلی میں نیا رن وے تیار کیا گیا ہے۔"

ایئر ٹریفک کے موضوع پر پینل میں جن دیگر اہم شخصیات نے حصّہ لیا ان میں بھارتی فضائی کمپنی جیٹ ایئر ویز کے نائب صدر برائے یورپ راجا سیرگن بھی شامل تھے- راجا سیرگن نے بتایا کہ اگرچہ جیٹ ایئر ویز بین الاقوامی سطح پر ایک نئی اور چھوٹی کمپنی ہے تاہم گزشتہ سولہ برسوں کے دوران اس پرائیویٹ کمپنی کی کارکردگی متاثر کن رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈومیسٹک سیکٹر کے مقابلے میں انٹرنیشنل سیکٹر پر جیٹ ایئر ویز کی کارکردگی میں بہتری رونما ہوگی کیونکہ بھارت میں متوسط طبقہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

Flugzeug von Jet Airways in Neu-Delhi
جیٹ ایئر ویئز کے نائب صدر برائے یورپ راجا سیرگن کے مطابق بھارت میں پینتیس ہوائی اڈوں کو ماڈرن بنانے اور پرائیواٹائز کرنے کے سلسلے میں کام ہو رہا ہےتصویر: AP

چھبیس سال تک سنگاپور ایئر لائنز کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد جیٹ ایئر ویئز کے نائب صدر برائے یورپ راجا سیرگن نے مزید بتایا کہ بھارت میں اس وقت پینتیس ہوائی اڈوں کو ماڈرن بنانے اور پرائیواٹائز کرنے کے سلسلے میں کام ہو رہا ہے۔ تاہم راجا سیرگن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بھارتی فضائی اڈوں پر بنیادی ڈھانچے کے مسائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، "انفراسٹرکچر اور ایئر ٹریفک کنجسشن کے حوالے سے یہ یقینا ایک چیلنج ہے تاہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کام ہورہا ہے- ایک دو برسوں میں یہ مسائل نہیں رہیں گے۔"

راجا سیرگن نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ جیٹ ایئر ویز کی پچاس فی صد آمدنی انٹرنیشنل سروسز سے ہوتی ہے۔ سیرگن نے کہا کہ مستقبل میں جیٹ ایئر ویز کے طیارے مسافروں کو فرانس اور جرمنی کی منزلوں تک بھی پہنچانا چاہیں گے، "مجھے پوری امید ہے کہ موجودہ بحران کے خاتمے کے بعد ہم اپنی فضائی کمپنی کو مزید مضبوط بنا سکیں گے اور مستقبل میں ہم فرانس اور جرمنی کے مارکیٹ کو ٹارگیٹ کرنا پسند کریں گے، یہ دو اہم بین الاقوامی منزلیں ہیں۔"

سیرگن نے مزید کہا کہ مستقبل میں بھارت سیاحت کے اعتبار سے گلوبل ڈیسٹینیشن بننے والا ہے اور اس لئے ایئر ٹریفک میں مزید اضافہ ہوگا۔

لفتھانزا کے سابق ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا ویرنر ہیزن نے بھارت میں سن 2003ء سے 2008ء کے دوران بہت ساری مثبت تبدیلیاں دیکھیں، "میں نے پانچ سال میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھیں- ایسی تبدیلیاں جو ایئویشن پالیسی سے متعلق تھیں- بھارت نے لبرالائزیشن کے لئے اپنے دروازے کھولنا شروع کردئے- بھارت کی معیشت کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔"

بھارت میں پانچ سالہ تجربے نے ویرنر ہیزن میں یہ امید پیدا کردی ہے کہ تمام تر مسائل کے باوجود بھارت مستقبل میں ایئر ٹریفک کا ہب بن سکتا ہے-

پینل میں اپنے خطاب کے بعد ڈوئچے ویلے اردو سروس کے ساتھ خصوصی بات چیت میں لفتھانزا کے سابق ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا ویرنر ہیزن نے بتایا کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں جرمنی اور بھارت کے درمیان ایئر ٹریفک کے سلسلے میں بہت اچھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، "اگر جرمنی اور بھارت کے درمیان 2003ء اور رواں سال کے ایئر ٹریفک کا موازنہ کیا جائے تو یہی معلوم ہوگا کہ صورتحال میں بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے- اس کی تازہ مثال لفتھانزا کی پروازوں کا بھارتی شہر پونے تک پہنچنا ہے۔"

ویرنر ہیزن نے مزید بتایا کہ چین کے مقابلے میں بھارت کی ڈومیسٹک مارکیٹ بہت مضبوط ہے اور اس لئے وہاں کا مستقبل اچھا ہے-

جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کی پروازیں نئی دہلی، ممبئی، حیدرآباد، بنگلور،کولکتہ اور چنئی کے علاوہ اب دوسرے شہروں تک جانا بھی شروع ہوگئی ہیں-

ایندھن کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے، توانائی کے حصول اور تحفّظ ماحولیات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس وقت ایوی ایشن انڈسٹری کو صارفین کی توقعات پورا کرنے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے-

رپورٹ : گوہر نذیر گیلانی، برلن

ادارت : افسر اعوان