1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: سیکولر ریاست میں مذہبی تفرقے کا سیاسی استعمال

کشور مصطفیٰ7 نومبر 2014

اپنی سیاسی چال بازیوں کا حصہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اس تصور کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ووٹرز ہی دراصل ملک میں ایک لچکدار سیاسی نظام کی وجہ بنتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Dj1G
تصویر: picture-alliance/dpa

سلسلہ ہمیشہ ایک افواہ سے شروع ہوتا ہے۔ غالباً ایک مسلمان مرد نے ایک ہندو مندر کے سامنے کوڑا پھینکا ہے، یا ایک ہندو لڑکے نے ایک مسلمان لڑکی کو چھیڑا ہے۔ ایسا کرنے والوں کے عموماً نہ نام سامنے آتے ہیں اور نہ ہی ان کی شناخت سے متعلق تفصیلات۔

اس کے باوجود مشتعل ہونے والوں کو ان افواہوں کو حقیقت سمجھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دونوں طرف کے حامیوں کا ہجوم اکھٹا ہوتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی شروع ہو جاتی ہے اور مخالفین ایک دوسرے پر پتھر برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ بس اسی طرح بھارت کے کسی بھی محلے سے فرقہ ورانہ فساد کی خبر موصول ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

1947ء میں بھارت کی آزادی کے بعد فرقہ ورانہ فسادات کے سلسلہ بند تو کیا ہوتا، کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں بھارت کی تاریخ کے بدترین فسادات کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مثال کے طور پر 1984ء میں سکھوں کے خلاف ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کو تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے بھیانک ترین فسادات کہا جاتا ہے۔ سکھ مخالف فسادات کو بھی تیس سال کا عرصہ گزر گیا تاہم بھارت جیسے ملک میں مذہبی فسادات اب بھی عام نظر آتے ہیں جبکہ اس سیکولر ملک کے آئین میں رواداری کی ضمانت دی گئی ہے۔

Indiens Premierminister Modi Feier des Unabhängigkeitstags CLOSE 15.08.2014
مذہبی جذبات بھڑکانے کے لیے سیاسی تقاریر کافی ہوتی ہیںتصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

بھارت جیسے ثقافتی اور لسانی طور پر متنوع ملک میں مذہب کی چنگاری بہت تیزی سے فرقہ ورانہ فسادات پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔ اس ملک میں کئی طرح کی مذہبی اور ثقافتی کشیدگیاں اور تناؤ پائے جاتے ہیں۔ فسادات کو ہوا دینے اور کشیدہ صورتحال کو قابو سے باہر ہونے میں عموماً سیاست کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔

بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں مذہبی اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ دیگر عقیدوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی باشندوں کو بھی اپنی سیاسی چال بازیوں کا حصہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اس تصور کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ووٹرز ہی دراصل ملک میں ایک لچکدار سیاسی نظام کی وجہ بنتے ہیں۔

فرقہ ورانہ فسادات کا تازہ ترین واقعہ گزشتہ ماہ نئی دہلی کے مشرقی علاقے تریلوکپوری میں پیش آیا۔ ہندوؤں کے چراغوں کے سالانہ تہوار دیوالی کی شام ایک مسجد کے پار ہندوؤں کے ایک عارضی مندر کے نزدیک چند شرابیوں کی طرف سے ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ چار گھنٹوں تک دونوں طرف کے بلوائیوں کے بڑے بڑے گروپوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے، پتھراؤ جاری رہا اور سڑک پر جنگ کا سا سماں تھا۔ اس واقعے میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ ایک مسلمان کی ملکیت ایک دکان کو نذر آتش کر دیا گیا۔ ہندوؤں نے مسجد پر پتھراؤ کیا اور درجنوں مسلمان مردوں نے ہندوؤں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔

Indien Gedenkveranstaltung in Amritsar Goldener Tempel Kämpfe
گولڈن ٹیمپل کے فسادات کی یادگار تقریبتصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images

یہ فساد حقیقت میں کیسے شروع ہوا، اس بارے میں متضاد بیانات سامنے آئے۔ ہندوؤں سے پوچھا گیا تو پتہ چلا کہ چند مخمور مسلمانوں نے شراب پی کر خالی بوتلیں ہندوؤں کے مندر کے قریب پھینک دیں۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ ہندو اور مسلمان دونوں طرف کے شہری مل کر شراب پی رہے تھے کہ ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ ان مسلمانوں کے مطابق ایسے جھگڑے اس محلے میں آئے دن ہوا کرتے ہیں، جن کو پولیس جلد ہی بیچ بچاؤ کراتے ہوئے نمٹا دیا کرتی ہے۔ اس بار اس جھگڑے نے ہندو مسلم فساد کی شکل اختیار کر لی اور دونوں گروپ ایک دوسرے پر تشدد شروع کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ تاہم دونوں طرف سے ایک بیان متفقہ تھا اور وہ یہ کہ پولیس اُس وقت آئی جب فساد اپنے بدترین مرحلے سے گزر چکا تھا۔ پولیس اپنے دفاع میں یہ کہہ رہی ہے کہ فسادات سنگین تھے اور اُسے مداخلت کرنے کی کوشش میں کئی گھنٹوں بعد کامیابی حاصل ہوئی۔

اس تشدد کے واقعے کو گزرے دو ہفتے کا عرصہ گزر گیا تاہم تریلوکپوری کے علاقے میں کشیدگی اب بھی باقی ہے۔ اینٹوں کے بنے متعدد چھوٹے چھوٹے مکان خالی اور بند پڑے ہیں، رہائشی اپنی حفاظت کے لیے شہر کے دیگر علاقوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں اور احباب کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ پولیس کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں گشت کرتی نظر آ رہی ہیں۔