1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت ایک غیر متحرک معاشی طاقت !

24 جولائی 2011

سفارتی امور کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے مگر نئی دہلی حکومت اب بھی خطے اور عالمی سطح پر قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی جانب زیادہ مائل دکھائی نہیں دیتی۔

https://p.dw.com/p/122Qy
تصویر: AP

ماہرین کے مطابق امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت خطے میں چین کے مقابلے کی پوزیشن پر آسکے۔ اس کے برعکس نئی دہلی کی خارجہ پالیسی میں اب بھی دہائیوں سے جاری وہی مزاج پایا جاتا ہے جہاں اسٹریٹیجک عزائم کے مقابلے میں سفارتی احتیاط کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے حالیہ دورہء بھارت کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اب وقت ہے کہ بھارت اپنی اقتصادی اور سیاسی طاقت کے حصار کو وسعت دے کر ایشیا اور اس سے بھی آگے مستقبل کی تعمیر کرے۔ کلنٹن کا کہنا تھا، ’’ یہ وقت قیادت کرنے کا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے انتہائی سرگرمی سے کوششیں کر رہا ہے۔

Clinton in Indien mit Minister Krishna
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نئی دہلی میں میزبان وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: AP

کہا جارہا ہے کہ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے اب تک جنوبی ایشیا کی اس ریاست نے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی محاذوں پر خاصی پیشرفت کی ہے مگر اس کا زیادہ تر دھیان قریبی پڑوسیوں تک ہی محدود رہا ہے۔ امریکہ کے لیے بھارت کے سابق سفیر للت من سنگھ کے بقول 1991ء کی اقتصادی اصلاحات اور 1998ء کے جوہری دھماکوں نے عالمی سطح پر بھارت کا مقام بدل کر رکھ دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے اعتراف میں اب بھارتی قیادت کوکھل کر بات کرنی چاہیے۔ سابق سفیر عرب دنیا میں جمہوریت کی حامی حالیہ تحریکوں کے لیے سست ردعمل ظاہر کرنے پر بھی بھارتی حکمرانوں کو قصور وار ٹہراتے ہیں: ’’میرے خیال میں بھارت کو چاہیے تھا کہ عرب تحریکوں کو زیادہ خوش آئند قرار دیتا، آمریت کے خلاف جنگ ہماری جمہوری روایات کے مطابق ہے، مگر ہم نے انتظار کرنے اور دیکھنے کو ترجیح دی، یہ بھارتی طریقہ ہے۔‘‘

بین الاقوامی سیاسی امور کے حوالے سے معتبر فارن پالیسی میگزین کے تازہ شمارے میں نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے راجہ موہن کا مؤقف بھی خاصا دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت عالمی امور میں اپنی آواز بلند ضرور کرے گا مگر اپنی ہی رفتار اور شرائط کے تحت: ’’ امریکہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا عالمگیر معاملات میں بھارت ذمہ داری لے سکتا ہے؟ بھارت عالمی سطح پر فیصلہ سازی میں زیادہ سرگرم ہونے کو تیار ہے مگر ذاتی مفاد کی بنیاد پر، کسی کی آزمائش کے لیے نہیں۔‘‘

Indien China Besuch Wen Jiabao Dezember 2010
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ صدارتی محل میں مہمان چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ کا استقبال کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک اور سابق بھارتی سفارتکار کے حوالے سے بتایا کہ اُن جیسے بہت سے سفارتکار دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کی روایتی پالیسی ہی کو طویل المدتی اثر و رسوخ کے لیے درست ٹہراتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سفارتکار کا کہنا ہے، ’’ ضروری نہیں کہ غیر متحرک پالیسی کمزور پالیسی ہو۔‘‘

ماہرین کے خیال میں خام مال کے حصول اور تیار مال کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں بھارت اب بھی چین سے بہت پیچھے ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں