1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بھارت اور کچھ اور بڑی بین الاقوامی قوتیں خوش نہیں‘

شکور رحیم، اسلام آباد2 جون 2015

پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کےپاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔

https://p.dw.com/p/1Faju
Xi Jinping mit Nawaz Sharif Archiv 08.11.2014 Peking
تصویر: Getty Images/P. Song

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف ان دو ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ اس منصوبے سے پورا خطہ فائدہ اٹھائے گا۔ خیال رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا تھا کہ بھارت کو پاک چین اقتصادی راہداری کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے گزرنے پر شدید اعتراض ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار ڈاکر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان سے پاکستان کے اس موقف کو تقویت ملی ہے جس کے مطابق کچھ قوتیں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے ناخوش ہیں اور وہ اس کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہ جو بھارت کی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی چینی قیادت سے ملاقات کا حوالہ دیکر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناقابل قبول کہا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس منصوبے سے بھارت اور کچھ اور بڑی بین الاقوامی قوتیں خوش نہیں ہیں۔‘‘

اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے منگل کو صوبہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں ایک کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ ہمیں کسی طرح آپس میں لڑایا جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دشمن گھناؤنی کارروائیوں سے ملک کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور کچھ لوگ فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ تین ہزار کلومیٹر لمبی پاک چین اقتصادی راہداری کا اعلان اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورۂ پاکستان کے موقع پر کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کو چینی صوبےسنکیانگ سے جوڑے گا اور اس کے تحت تقریباً 46 ارب ڈالر کی لاگت سے شاہراہوں، ریلوے، کارخانوں ار پائپ لائنوں کاایک وسیع نیٹ ورک تعمیر کیا جائے گا۔

اقتصادی راہداری کا منصوبہ چین کے لیے ایشیا کے مختلف ممالک سمیت مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک تک رسائی اور وہاں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ایک سستا راستہ ثابت ہو گا۔

پاکستان میں اس راہداری کے روٹ میں مبینہ تبدیلی کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے دو مرتبہ کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا۔

دوسری جانب پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ امریکا کا ہندوستان کے ساتھ جوہری معاہدہ جنوبی ایشیاء میں اسٹرٹیجک استحکام کو متاثر کرے گا۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری پاکستان اور امریکا کے درمیان سکیورٹی، اسٹرٹیجک استحکام اور جوہری عدم پھیلاﺅ پر منگل سے شروع ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت کے لئے اس وقت واشنگٹن میں موجود ہیں۔

پیر کے روز پاکستانی سفارتخانے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ اسٹرٹیجک توازن کو برقرار رکھنا جنوبی ایشیاء میں امن کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ ان مذاکرات کے لیے ہماری مرکزی لائن ہے۔‘‘

پاکستان کے انگریزی روزنامے ڈان کے مطابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ "ہندوستان کے خطرے کا احساس ہی پاکستان کے جوہری پروگرام کی واحد منطقی وجہ ہے، یہ استعمال کے لیے نہیں بلکہ دفاعی ہتھیار ہے۔‘‘

سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ امریکا ہندوستان جوہری معاہدہ جس پر 2006 میں دستخط ہوئے تھے، نے "اس خطے کے اسٹرٹیجک استحکام کو متاثر کیا، جو اس معاہدے پہلے موجود تھا۔‘‘