1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور جرمنی کے درمیان اقتصادی تعلقات میں مسلسل اضافہ

جاوید اختر، نئی دہلی
22 مارچ 2018

جرمنی کے صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے بھارت کا پانچ روز ہ سرکاری دورہ شروع کر دیا ہے۔ ان کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے استحکام اور فروغ کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ulOg
Indien Steinmeier zu Besuch Ankunft
تصویر: Reuters/A. Abidi

جرمنی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شٹائن مائر کا یہ بھارت کا پہلا دورہ ہے ۔ اس سے قبل 2014ء میں وہ وزیر خارجہ کے طور پر بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ بھارت کے وفاقی وزیر ایس ایس اہلوالیہ نے نئی دہلی کے اندرا گاندھی ہوائی اڈے پر جرمن صدر اور ان کی اہلیہ کا استقبال کیا۔ جرمن صدر دہلی میں مختصر قیام کے بعد آج بدھ کو مندروں کے شہر وارانسی روانہ ہوگئے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کا پارلیمانی حلقہ انتخاب بھی ہے۔ انہوں نے بدھ مت کے بانی گوتم بدھ سے وابستہ تاریخی مقام سارناتھ کا دورہ بھی کیا۔ کہا جاتا ہے کہ گوتم بدھ نے خدا کا ’عرفان‘ حاصل کرنے کے بعد اپنے سات شاگردوں کو پہلی مرتبہ اسی جگہ پر نصیحت کی تھی۔ جرمن صدر گنگا ندی کے گھاٹ پر ہندووں کے کئی مذہبی رسومات میں بھی شرکت کریں گے اور وارانسی ہندو یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالروں سے خطاب بھی کریں گے۔

بھارتی وزیر اعظم مودی کی عوامی مقبولیت کی وجوہات کیا؟
جرمن صدر کے پانچ روزہ پروگرام میں دہلی میں تقریباً چار سو سال قبل مغل بادشاہ شاہ جہاں کی تعمیر کردہ تاریخی جامع مسجد کا دورہ بھی شامل ہے۔ جامع مسجد کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری جرمن صدر کا خیر مقدم کریں گے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔ وہ انہیں جامع مسجد کی تعمیر اور اس کی تاریخی اہمیت سے بھی واقف کرائیں گے۔ جرمن صدر کا 24  مارچ کو صدارتی محل میں رسمی خیر مقدم کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ وہ صدر رام ناتھ کووند ، نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

Indien Steinmeier zu Besuch Ankunft
تصویر: Reuters/A. Abidi

’بھارتی بیورو کریسی غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ‘
جرمن صدر کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی اور اسٹریٹجک تعلقات کے لحاظ سے نہایت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ یہاں اسٹریٹجک امور کے ماہر راجیو شرما نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’چونکہ یورپ میں جرمنی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور وہ نہ صرف اقتصادی لحاظ سے کافی اہم ملک ہے بلکہ یورپی یونین کی پالیسیوں میں اس کا کافی اثر و رسوخ ہے اس لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور جرمن صدر کے درمیان بات چیت سے باہمی تعلقات اور تعاون کو آگے بڑھانے میں کافی مدد ملے گی۔‘‘
راجیو شرما کا مزید کہنا تھا، ’’جرمنی کئی شعبوں بالخصوص اسکل ڈیولپمنٹ، قابل تجدید توانائی اور واٹر مینجمنٹ وغیرہ میں کافی مہارت رکھتا ہے اور بھارت اس سے ان شعبوں میں استفادہ حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت جرمنی سے اعلی تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں بھی مدد لے سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت میں بالخصوص بنیاد ی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے کافی مواقع ہیں اور جرمنی کے سرمایہ کار اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ بھارت اور جرمنی کے درمیان اقتصادی تعلقات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار سولہ اور سترہ میں دونوں ملکوں کے مابین مجموعی طور پر 18.76 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اس میں بھارت نے 7.18 ارب ڈالر کی اشیاء جرمنی کو برآمد کیں جب کہ جرمنی سے 11.58ارب ڈالر مالیت کے مصنوعات درآمد کی گئیں۔

جرمنی گنگا ندی کی صفائی کے بھارت کے قومی پروگرام نیشنل کلین گنگا مشن میں بھی تعاون کر رہا ہے۔ گنگا ندی کو ہندوؤں میں انتہائی مقدس مذہبی مقام حاصل ہے۔ وہ اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے گنگا کا پانی آج نہانے کے لائق بھی نہیں رہ گیا ہے۔
دریں اثناء جرمن صدر نے موقر انگلش روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا، ’’بھارت اور جرمنی کے تعلقات کو صرف چند شعبوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کی توسیع کے بے پناہ مواقع موجود ہیں جن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس برس میں باہمی تجارت کا حجم تین گنا بڑھ چکا ہے۔ اٹھارہ سو جرمن کمپنیوں نے بھارت میں چار لاکھ سے زائد ملازمت کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ صرف سن 2017ء میں ہی جرمن کمپنیوں نے بھارت میں 1.2 ارب یوروکی سرمایہ کاری کی ہے۔