’بچوں کی لاکھوں فحش تصاویر‘، ملزم کی امریکا حوالگی کا فیصلہ
16 دسمبر 2015نیوز ایجنسی روئٹرز نے ڈبلن سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی اٹارنی جنرل نے 2013ء میں ڈبلن حکومت سے درخواست کی تھی کہ ایرک مارکیز کو امریکا کے حوالے کیا جائے، جس پر بچوں سے متعلق فحش مواد کی تشہیر اور تقسیم کے چار الزامات ہیں۔ تب امریکی اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ مارکیز یہ کام ایک گمنام ہوسٹنگ ویب سائٹ کے مالک اور منتظم کے طور پر کر رہا تھا، جسے فریڈم ہوسٹنگ کا نام دیا گیا تھا۔
مارکیز پر الزام ہے کہ وہ خفیہ کوڈز کے ذریعے یہ سارا ڈیجیٹل مواد مختلف ویب سائٹس کو فراہم کرتا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ مارکیز کے پاس مجموعی طور پر بچوں کی ایک ملین سے زیادہ فحش تصاویر کا ذخیرہ تھا۔ اس عدالت میں ایک ابتدائی سماعت میں ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے بتایا تھا کہ ان تصاویر میں نابالغ بچوں کے ساتھ جبری جنسی زیادتی اور اُن پر جبر و تشدد کی تصاویر بھی شامل تھیں۔ اس ایجنٹ نے مارکیز کو ’کرہٴ ارض پر چائلڈ پورنوگرافی کا سب سے بڑا سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔
ایرک مارکیز اگست 2013ء میں اپنی گرفتاری کے بعد سے زیرِ حراست ہے۔ مارکیز کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ مارکیز ان تمام الزامات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ اُس پر مقدمہ آئر لینڈ ہی میں چلایا جائے۔ آئر لینڈ کے پبلک پراسیکیوشن محکمے کے ڈائریکٹر نے البتہ عدالت کو بتایا کہ اُن کا محکمہ اُس کے خلاف کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اس طرف سے مایوس ہونے کے بعد مارکیز کے وکلاء نے یہ کہہ کر اُس کی امریکا کو حوالگی روکنے کی کوشش کی کہ اُن کا مؤکل ایسپرگر سینڈروم کا شکار ہے اور خدشہ ہے کہ امریکا میں اُس کا مناسب علاج نہ ہو سکے گا، یہ بھی کہ وہاں اُس پر جنسی حملے بھی ہو سکتے ہیں تاہم جسٹس آئیڈین ڈونلی نے یہ تمام خدشات رَد کر دیے اور اس یقین کا اظہار کیا کہ مارکیز کی امریکا کو حوالگی سے اُس کے آئینی یا روایتی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔
آئرش ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھی ایرک مارکیز کو تب تک امریکا کے حوالے نہیں کیا جائے گا، جب تک وہ آئر لینڈ میں اپیل کرنے کے تمام تر امکانات سے فائدہ نہیں اٹھا لیتا۔ امریکا کے حوالے کیے جانے کی صورت میں مارکیز کو ساری عمر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑ سکتا ہے کیونکہ تمام چار الزامات میں قصور وار ثابت ہونے پر اُسے پورے ایک سو سال کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔