1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں سے زیادتی کا اسکینڈل، ایک اور معاشرتی ناسور کی نشاندہی

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور9 اگست 2015

پاکستان میں بچوں کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، ماہرین کے مطابق قصور جیسے واقعات پاکستان کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GCIX
Symbolbild Kindermissbrauch
تصویر: Fotolia/Gina Sanders

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق بچوں کو جنسی طور پر نشانہ بنائے جانے کے واقعات کو رپورٹ نہ کیے جانے کے رجحان کی وجہ سے حکومت، اساتذہ اور والدین اس اہم ترین مسئلے کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔

پاکستان میں کئی دہائیوں سے بچوں کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ایک ماہر ڈاکٹر عرفان احمد نے بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی قابل اعتماد اعداد وشمار میسر نہیں ہیں، جبکہ بچوں کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں بچوں کو شدید جنسی مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں 2013ء میں بچوں کے خلاف تین ہزار سے زائد مجرمانہ واقعات رپورٹ ہوئے، ان میں سے 1220 بچوں پر جنسی تشدد کیا گیا تھا۔ ان بچوں کی عمریں 15 سال سے بھی کم تھیں۔ رپورٹ کے مطابق بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافے کے باوجود حکام نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ اس رپورٹ میں ایک ڈاکومنٹری کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے بس اڈوں پر بچوں کے ساتھ غیر فطری جنسی اختلاط کے بڑھتے ہوئے واقعات کی نشان دہی کی گئی تھی۔

ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ قصور کے علاقے میں ہی کچھ عرصہ پہلے ایک 11 سالہ بچی کو ایک دُکاندار نے چند ٹافیوں کے عوض بہلا پھسلا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنا دیا تھا، ’’میں ایک مرتبہ چکوال کے ایک گاؤں میں گیا، میرا انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا تھا، میں ایک نیٹ کیفے میں گیا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ صرف 10 روپے کے عوض بچوں کو نیٹ پر فحش مواد دکھایا جا رہا تھا، ایسی مثالیں ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسے مواد تک بچوں کی آسان رسائی بھی جنسی تشدد کو فروغ دینے کا باعث بن رہی ہے۔‘‘

ادھر پنجاب حکومت نے سانحہ قصور کے حوالے سے عدالتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس نے اتوار نو اگست کو قصور اسکینڈل کے ایک اور ملزم کو گرفتار کر لیا۔ پنجاب میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے قصور کے اس واقعے کو پنجاب حکومت کے گُڈ گورننس کے دعووں پر ایک طمانچہ قرار دیتے ہوئے متعلقہ پولیس حکام کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ قصور کے علاقے گنڈا سنگھ والا کے گاؤں حسین خان والا کے رہائشیوں کی طرف سے گزشتہ ماہ پولیس کو مطلع کیا گیا تھا کہ اس علاقے میں ایک گروہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی وڈیوز بناتا ہے اور ان وڈیوز کو تلف کرنے کے لیے بعض بچوں کے والدین سے رقوم کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

Symbolbild Kindesmissbrauch
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران 284 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی 400 سے زائد ویڈیوز بنائی گئیںتصویر: picture alliance / ZB

بعض میڈیا رپورٹس میں اس واقعے کو پاکستان کی تاریخ میں بچوں سے جنسی زیادتی کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران 284 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی 400 سے زائد وڈیوز بنائی گئیں۔

ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر قصور کے ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسرعدنان ارشد اولکھ نے بتایا کہ میڈیا رپورٹس میں بیان کیے گئے اعداد و شمار درست نہیں ہیں، ’’ابھی تک صرف آٹھ افراد نے پولیس کو شکایت درج کروائی ہے اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بعض نامزد ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔‘‘ ان کے بقول قصور کا یہ واقعہ دو با اثر گروپوں میں اراضی کے مسئلے پر پیدا ہونے والے جھگڑے کا شاخسانہ ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی دو درجن سے زائد غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد چائلڈ رائٹس موومنٹ کے رہنما افتخار مبارک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب میں بچوں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے اور پنجاب حکومت پچھلے کئی سالوں سے چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کے مسودے کی منظوری دینے میں ناکام رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں