1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں شیعہ اقلیت پر پہلا دہشت گردانہ حملہ

عاطف توقیر24 اکتوبر 2015

بنگلہ دیش میں ہفتے کو ایک امام بارگاہ میں ہونے والے بم دھماکوں میں ایک عزا دار ہلاک جب کہ اسّی دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بنگلہ دیش میں شیعہ مسلم اقلیت کو اس قسم کے کسی حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GtYk
Bangladesch Polizei Sicherheit Terror Symbolbild
تصویر: AFP/Getty Images/M. Uz Zaman

عاشورہ کے سلسلے میں بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں واقع ایک مرکزی امام بارگاہ حسینی دالان میں جمع ہزاروں شیعہ عزا داروں کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب قریب دو بجے بم حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہےکہ ان دھماکوں میں ہلاک ہونے والا ایک 14 سالہ نوجوان تھا۔

یہ واقعہ بنگلہ دیش میں چند ہفتے قبل ایک اطالوی امدادی کارکن اور ایک جاپانی کسان پر جان لیوا حملوں کے بعد پیش آیا ہے۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔

پولیس کے مطابق ڈھاکا میں اس امام بارگاہ پر حملے کے وقت وہاں قریب 20 ہزار عزا دار موجود تھے۔ پولیس نے بتایا، ’’قریب بیس ہزار افراد امام بارگاہ کے اندر اور باہر موجود تھے۔ یہ عاشورہ محرم کے سلسلے میں ماتم شروع کرنے والے تھے، جب وہاں تین بم دھماکے ہوئے۔‘‘

Pakistan Belutschistan Selbstmordattentat in Moschee
اس سے قبل شیعہ اقلیت کے واقعات جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان میں رونما ہوتے رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Hussain

دنیا بھر میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان محرم کے مہینے میں عزا داری اور ماتمی اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں۔ تاہم جنوبی ایشیا میں اس سے قبل پاکستان میں اس اقلیت کو دہشت گردانہ حملوں کا شکار دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں رواں ہفتے ایسے ہی اجتماعات پر ہونے والے دو خود کش بم حملوں میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش کے مقامی ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق ان دھماکوں کے بعد وہاں افراتفری کا سماں تھا اور جائے واقعہ پر متعدد افراد ہاتھوں میں سیاہ ماتمی پرچم تھامے ہوئے تھے جب کہ ایمبولینسیں زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر رہی تھیں۔

مقامی پولیس کے سربراہ عزیزالحق نے اس واقعے میں ایک نوجوان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قریب 80 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ اس دہشت گردانہ واقعے سے متاثر ہونے والی امام بارگاہ 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔

عزیزالحق نے بتایا، ’’ہم نے دو بم برآمد کیے ہیں، جو پھٹے نہیں۔ یہ بم قریب ایسے ہی ہیں جیسے دستی بم ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹریاں نصب ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔‘‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں زخمی ہونے والوں میں سے کوئی بھی طبی طور پر تشویش ناک حالت میں نہیں۔ ’’زخمیوں میں سے 50 کو ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ایک 14 سالہ لڑکا اس واقعے میں ہلاک ہوا ہے۔ اس کی ہلاکت کی وجہ ایک بم دھماکا بنا۔‘‘

فی الحال کسی گروہ یا تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں مسلم شدت پسندی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔