1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: داعش نے شیعہ مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی

امتیاز احمد27 نومبر 2015

چند ہفتے پہلے بنگلہ دیش کی ایک شیعہ مسجد پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے۔ دریں اثناء بنگلہ دیش پولیس نے اسی سلسلے میں کالعدم جماعت المجاہدین کے سربراہ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HDJ6
Bangladesh Explosion
تصویر: Getty Images/AFP/M. Zaman

دنیا بھر میں جہادی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے امریکی آن لائن گروپ سائٹ (SITE)کے مطابق عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے چند ہفتے پہلے بنگلہ دیش کی ایک شیعہ مسجد پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور دیگر تین زخمی ہو گئے تھے۔

قبل ازیں بنگلہ دیشی حکومت نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ دارالحکومت میں واقع امام بارگاہ پر ہونے والے حالیہ حملے کے پیچھے داعش کا ہاتھ تھا۔ حکومت کے مطابق ملک میں شدت پسند داعش کا وجود ہی نہیں ہے۔ SITE ویب سائٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری داعش کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے قبول کی گئی ہے۔

قبل ازیں داعش ہی نے بنگلہ دیش میں دو غیرملکیوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق ان حملوں کے پیچھے داعش نہیں بلکہ وہ مقامی عسکری گروپ کارفرما ہیں، جن پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور جن کا مقصد عوام کو منقسم کرنا اور ملک کو غیر مستحکم بنانا ہے۔

’’جماعت المجاہدین کا سربراہ ہلاک‘‘

دوسری جانب بنگلہ دیش پولیس نے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم جماعت المجاہدین کے سربراہ کو ایک خصوصی کمانڈو کارروائی کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کارروائی دارالحکومت ڈھاکا کے میرپور علاقے میں کی گئی، جہاں فائرنگ کا مختصر تبادلہ ہوا اور البانی مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ البانی جماعت المجاہدین کے سربراہ تھے۔ تاہم ان حکومتی دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

پولیس کے جوائنٹ کمشنر منیر الاسلام کے مطابق دارالحکومت میں واقع امام بارگاہ پر ہونے والے حملے کے مرکزی مشتبہ ملزم بھی البانی ہی تھے۔ بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت میں ہی مختلف چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہوئے جماعت المجاہدین کے چھ دیگر اراکین کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کی طرف سے اپوزیشن اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور پھانسیوں کے سلسلے کے بعد سے ملک میں پائی جانے والی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ کریک ڈاؤن گزشتہ تین برسوں سے جاری ہے جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش کا طویل ہوتا ہوا یہ سیاسی بحران اپوزیشن عناصر کو انتہاپسندی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔