1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بمف کے کام پر خفیہ ریسرچ، ایک صحافی وہاں کیسے پہنچا؟

صائمہ حیدر جولیا ورجن
7 جون 2018

جرمن وفاقی ادارہ برائے مہاجرین و ترک وطن آج کل کرپشن اسیکنڈل کی زد میں ہے۔ پاکستانی نژاد جرمن صحافی عبداللہ خان نے ’بمف‘ میں خفیہ طور پر کام کیا اور اپنے تجربے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کی۔

https://p.dw.com/p/2z4Sd
BILD-Reporter Abdullah Khan hat 2016 für vier Monate undercover als Sachbearbeiter beim BAMF gearbeitet
تصویر: BILD/Stefanie Herbst

جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ میں کام کرنے والے صحافی عبداللہ خان کا خاندان قریب چالیس برس پہلے پاکستان سے جرمنی منتقل ہو گیا تھا۔ ڈی ڈبلیو نے عبداللہ خان سے بی اے ایم ایف میں ’انڈر کور‘ کام کرنے کے تجربے کے بارے میں پوچھا۔

ڈی ڈبلیو: بطور صحافی آپ نے سن 2016 میں فروری سے مئی کے درمیانی عرصے میں بی اے ایم ایف میں خفیہ طور پر کام کیا۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟

عبداللہ خان: مجھے مہاجرت کے موضوع میں بہت دلچسپی تھی۔ جرمن اخبار’بلڈ‘ کے لیے کام کرتے ہوئے میں بلقان کی ریاستوں سے جرمنی کی جانب گامزن پناہ گزینوں کے ایک گروپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اسی دوران مجھے یہ خیال آیا کہ مہاجرین اپنی پناہ کی درخواستیں بی اے ایم ایف میں دائر کرتے ہیں تو کیوں نہ وہاں ملازمت اختیار کی جائے۔ اس ادارے کو ان دنوں لوگوں کی ضرورت بھی تھی اور وہ ملازمت کے اشتہار بھی شائع کر رہے تھے۔ میں نے بلڈ اخبار کی نوکری چھوڑ کر بمف میں ملازمت کی درخواست دی اور مجھے بطور اسسٹنٹ انتظامی اُمور، ملازمت بھی مل گئی۔

ڈی ڈبلیو: کیا یہ آسان تھا؟ کیونکہ آپ کا اس شعبے میں پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا۔

عبداللہ خان: جی یہ نسبتاﹰ آسان تھا کیونکہ میں کچھ بنیادی شرائط پر پورا اترتا تھا۔ مثلاﹰ میں چار زبانیں جانتا ہوں۔

ڈی ڈبلیو: کیا آپ کو اس کام کی کوئی تربیت دی گئی؟ اگر ہاں تو آپ نے اس ٹریننگ میں کیام کچھ سیکھا؟

عبداللہ خان: جب میں نے بمف میں کام شروع کیا تو وہاں تربیت کا عرصہ دس ہفتوں سے کم کر کے دس دن کر دیا گیا تھا۔ مجھے ڈیٹا مینیجمنٹ سسٹم سے متعارف کرایا گیا اور یہ بھی کہ پناہ کی درخواستوں پر درجہ بہ درجہ عمل درآمد کس طرح کرنا ہے۔ یہ ایک تیز رفتار اور مختصر کورس تھا۔

ڈی ڈبلیو: انتظامی امور کے اسسٹنٹ کے طور پر آپ کے فرائض کیا تھے؟

عبداللہ خان: میرے پاس پناہ کی ابتدائی درخواست یا ابتدائی فیصلے کے خلاف اپیل کی درخواست دائر کرانے کے خواہشمند مہاجرین آتے تھے۔ پناہ کے متلاشی افراد مترجم کی مدد سے پُر کردہ ذاتی معلومات پر مبنی سوال نامے میرے پاس چھوڑ جایا کرتے تھے اور میں ان معلومات کو کمپیوٹر سسٹم میں ٹائپ کر دیتا تھا۔ علاوہ ازیں پناہ گزینوں کو جرمنی میں رہائش کا عارضی اجازت نامہ بھی جاری کرتا تھا۔

ڈی ڈبلیو: سن 2016 میں بڑی تعداد میں پناہ کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ قریب ساڑھے سات لاکھ درخواستیں۔ بمف میں کام کرنے والے اسے کیسے دیکھتے تھے؟

عبداللہ خان: میرا خیال تھا کہ ایسی صورت حال میں ہمیں زیادہ تیز رفتاری سے کام کرنا ہو گا لیکن کام کئی روز تک رکا رہتا تھا جب ہم ہمارا کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا تھا یا جب ہمیں درخواستوں کی نئی فائلیں وصول نہیں ہوتی تھیں۔ تاہم ایسے بھی دن آتے تھے جب کام بہت زیادہ تھا اور سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔

ڈی ڈبلیو: آپ اور دفتر میں ساتھی اہلکار کام کے اس دباؤ سے کیسے نمٹتے تھے؟

عبداللہ خان: میرے تجربے کے مطابق میرے دفتری ساتھیوں نے وہ سب کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ بمف کے حالیہ بحران کا ذمہ دار اُنہیں نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے دفتری ماحول میں تناؤ ضرور تھا لیکن میرے ساتھیوں نے اسے بہت اچھی طرح نبھایا۔

ڈی ڈبلیو: اچھا یہ بتایئے کہ جب آپ کو شبہ ہوتا تھا کہ کوئی درخواست گزار جھوٹ بول رہا ہے تب آپ کیا کرتے تھے؟

عبداللہ خان: یہ ہمیشہ ایک مشکل صورت حال ہوتی ہے۔ ایک تارک وطن میرے پاس آیا جس کا کہنا تھا کہ وہ چوبیس برس کا ہے جبکہ وہ پچاس سے کم دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کی وضاحت اُس شخص کے پاس یہ تھی کہ وہ ایک اداکار ہے اور اداکار اپنی عمر سے بڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے مہاجر کی فائل میں یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی معلومات غالباﹰ درست نہیں، اس کے بعد امید یہی کی جاتی تھی کہ درخواست پر فیصلہ کرنے والا اہلکار یہ نوٹ پڑھ بھی لے گا۔

کیا زیادہ تر افغان پناہ گزین نوجوان، صحت مند اور روزگار کے متلاشی ہیں؟

ڈی ڈبلیو: کیا آپ سے خاص طور سے کام تیز رفتاری سے نمٹانے کو کہا گیا؟

عبداللہ خان: براہ راست تو نہیں لیکن ہمیں ہماری تربیت کے دوران یہ ضرور بتایا گیا تھا کہ پناہ کی درخواست پر کارروائی کے ہر مرحلے کو ہمیں کتنا وقت دینا ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا پناہ کی درخواستوں میں ردوبدل کیا جانا ممکن تھا؟

عبداللہ خان: ہاں کیوں نہیں، ایسا کرنا بہت آسان تھا۔ انتظامی اسسٹنٹ کو ڈیٹا سسٹم تک مکمل رسائی حاصل تھی۔ تاہم میرے عرصہ ملازمت کے دوران کسی نے مجھے درخواستوں میں ردوبدل کرنے کے لیے پیسوں کی پیشکش نہیں کی۔

ڈی ڈبلیو: سن 2016 میں بمف پر تنقید کی گئی کہ اس نے پناہ کی درخواستوں پر مناسب رفتار سے کارروائی نہیں کی۔ کیا یہ تنقید جائز تھی؟

عبداللہ خان: اس ضمن میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ملازمین کو الزام نہیں دینا چاہیے۔ لیکن سیاستدانوں کو اس ادارے کو مستحکم بنانے کے لیے ابتدائی سالوں میں ہی زیادہ مدد فراہم کرنی چاہیے تھی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔

ڈی ڈبلیو: آپ کی بمف میں ملازمت اختتام کو کیسے پہنچی؟

عبداللہ خان: کچھ عرصے بعد ہی تمام عمل کا اعادہ ہونے لگا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب میں اپنی ریسرچ ختم کر سکتا تھا۔ میں نے وہ ملازمت ترک کر دی اور بلڈ اخبار کے لیے اپنی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی۔