1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: لاپتہ افراد کے حق میں عید کے روز بھی مظاہرے

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ29 جولائی 2014

بلوچستان میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے لواحقین نے آج عید کے پہلے روز بھی صوبے کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا ہے۔ کوئٹہ میں نکالی گئی ایک ریلی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Clpx
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

مظاہروں کے شرکاء نے حکومت کے خلاف شدید نعرے لگائے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مظا ہرین نے اقوام متحدہ سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے پاکستانی حکومت پر دباؤ بڑھانے کی اپیل کی اور حکومت سے لاپتہ بلوچ نوجوانوں کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔

اس احتجاج کی کال لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مِسنگ بلوچ پرسنز( وی بی ایم پی) کی جانب سے دی گئی تھی۔ لاپتہ ہونے والے سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنوں کے لواحقین نے اپنے عزیز و اقارب کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف کوہلو، نوشکی، قلات، بولان، کرمو وڈھ کاہان اور دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ کوئٹہ میں پریس کلب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔

Pakistan Proteste in Balochistan
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

مظاہرین نے ہاتھوں میں اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی تصویریں اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر گمشدہ افراد کی بازیابی اور انہیں منظر عام پر لانے کے مطالبات درج تھے۔

احتجاج میں شامل وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے رہنماء ماما عبدالقدیر بلوچ کے بقول لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لئے ریاستی ادارے سنجیدگی سےکوئی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں، اس لئے یہ معاملہ مزید زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’سن 2001ء سے لے کر اب تک ہمارے 14362 افراد لاپتہ ہوئے ہیں، جن میں ہمیں 370 مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں۔ بچے اور خواتین بھی بڑی تعداد میں لاپتہ ہوئی ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حقوق کی لئے آواز اٹھائی اور انہوں نے اپنے وسائل کی بات کی تھی۔‘‘

احتجاجی ریلی میں کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے بھی شرکت کی، جن میں تربت سے 2007ء میں لاپتہ ہونے والے شاکر بلوچ کی بہن انیسہ بلوچ بھی شامل تھی، ’’چار سال سے میں نے اپنے بھائی کو نہیں دیکھا ہے۔ میں کیسے خاموش ہو سکتی ہوں۔ کوئی ہمیں نہیں سن رہا ہے، میں کس کو اپنا پیغام دوں۔ اپنی نظریں نیچی نہیں کر سکتی، اگر میں ان کی تصویر کو ڈائریکٹ دیکھوں گی تو کمزور نہ ہوجاؤں۔ یہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے اس کو بلند کیا ہوا ہے کہ اسے بازیاب کرو۔‘‘

یاد رہے کہ بلوچستان کی وزارتِ داخلہ نے لاپتہ افراد کی تعداد صرف اٹھانوے ظاہر کی ہے۔ جبکہ اس صورتحال کے برعکس سپریم کورٹ میں ڈیڑھ سو سے زائد لاپتہ افراد کے ورثاء اب تک اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کے لئے درخواستیں داخل کروا چکے ہیں۔