بلوچستان حالات سنگین تر
14 اپریل 2009مظاہرین بینکوں، سرکاری گاڑیوں اوردفاتر کو نذرآتش کررہے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب آباد کاروں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر صوبے سے نکلنے کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل بھی صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آباد کار اپنے آپ کو بلوچستان کا حصہ سمجھیں اور ان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کریں تو نفرتوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچ قوم کے دلوں میں نفرتیں حکمرانوں اور سول ملٹری بیورکریسی کے رویوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔
سرادار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے کوئٹہ میں نمائندے جا ن سولیکی کی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے والے بلوچ قوم پرستوں کا قتل بھی سولیکی کو نقصان پہنچانے کےلئے کیا گیا تھا مگر بلوچ قوم نے اس موقع پر ہوش مندی فہم وفراست سے کام لے کر پوری بلوچ قوم کو عالمی سطح پر دہشت گرد قراد دلوانے کی سازش کو نا کام بنا دیا۔
ادھر دوسری جانب الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام قوم پرست تنظیمیں نواب اکبر بگٹی سمیت تمام بلوچ رہنماؤں کے قتل کی عدالتی تحقیقات اور مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی تحویل میں ان سینکڑوں افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں جو اب تک لاپتہ ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ مخدوش ہوتی جارہی ہے۔