1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ باغی تنظیموں کے مابین جھڑپیں، چونتیس ہلاک

عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ30 جون 2015

بلوچستان کے تین مختلف اضلاع ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور آواران میں حکومت مخالف بلوچ باغی گروپوں کے مابین جھڑپوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں کم از کم چونتیس افراد ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FqB2
Aufständische in Belutschistan
تصویر: DW/K.Zurutuza

فرنٹئرکور بلوچستان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے شورش زدہ ضلع آواران میں سرچ آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے باغیوں میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا بھائی اور بھانجا بھی شامل ہیں۔ اس کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز نے باغیوں کے پانچ ٹھکانے بھی تباہ کئے ہیں اور وہاں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود قبضے میں لیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کے بقول شورش زدہ ضلع ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں آزادی پسند کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ یونائٹڈ آرمی کے عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپیں پیر اور منگل کی درمیانی شب شروع ہوئی تھیں جو کہ تاحال جاری ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’بی ایل اے اور یو بی اے کے شدت پسند ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کر رہے ہیں۔ اس فائرنگ کے دوران دونوں متحارب گروپوں کو شدید جانی اور مالی نقصان پہنچا ہے۔ اب تک بیس شدت پسندوں کی ان جھڑپوں میں ہلاکت جبکہ پندرہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ باغی ہلاک شدگان کی لاشیں اٹھا کر اپنے علاقوں میں لے گئے ہیں۔ مسلح جھڑپوں سے مقامی آبادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ "

Pakistan Belutschistan Armee Offensive
ضلع آواران میں مشکے بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا آبائی علاقہ ہے۔ اس علاقے کو بی ایل ایف کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔تصویر: Abdul Ghani Kakar

ضلع کوہلو متوفی بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری جبکہ ڈیرہ بگٹی، فوجی آپریشن میں ہلاک ہونے والے نواب اکبر بگٹی کا آبائی علاقہ ہے۔ بلوچستان میں بلوچ مسلح بغاوت کا آغاز سب سے پہلے انہی علاقوں سے ہوا تھا۔

ضلع کوہلو کے ایک قبائلی رہنما وڈیرہ ذاکر خان مری نے ڈی ڈبلیو کو ٹیلی فون پر بتایا، ’’کوہلو میں عسکریت پسندوں کے تصادم کے باعث علاقے میں شدید کشیدگی پھیل گئی ہے اور اس تصادم کی وجہ سے مقامی لوگوں کے جانوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ، ’’دونوں اطراف سے شدید فائرنگ ہو رہی ہے جبکہ مقامی لوگ گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔ حکومت ہمیں تحفظ فراہم کرے، باغی ایک دوسرے پر مارٹر شیل بھی فائر کر رہے ہیں۔ کئی گولے مقامی آبادی کے قریب گرے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی توعام لوگ بھی ان جھڑپوں کی زد میں آ جائیں گے۔ "

وڈیرہ ذاکر مری کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کی مداخلت کے بغیر کوہلو میں جاری جھڑپیں ختم نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت علا قے میں قیام امن کے لئے ترجیہی بنیادوں پر کارروائی عمل میں لائے۔

انہو ں نے کہا، " کوہلو کا شمار صوبے کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے لوگ شدت پسندوں کے حملوں اور دھمکیوں کے باعث شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ بی ایل اے اور یو بی اے کی جاری جھڑپوں کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ان کی جانوں کو شدید خطرات میں ڈالنے کے مترادف ہوگا ۔ "

دریں اثناء ایف سی کے ترجمان ڈاکٹر خان وسیع کے مطابق شورش زدہ ضلع آواران کے علاقے میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے روپوش شدت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز نے آج بڑے پیمانے پر آپریشن کیا ہے، جس میں اہم پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔

Pakistan Belutschistan Armee Offensive
سکیورٹی فورسز نے آج کی کارروائی میں اہم پیش رفت حاصل کی ہے۔تصویر: Abdul Ghani Kakar

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، "اس اپریشن کا ہدف بلوچ لبریشن فرنٹ ہے۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ فا ئرنگ کے تبادلے میں اس کالعدم تنظیم کے 14 شدت پسند ہلاک جبکہ تیرہ زخمی ہوئے ہیں ۔ ہلاک ہونے والوں میں بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا بھائی سفر بلوچ ، اور بھانجا شہک بلوچ بھی شامل ہیں۔ کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک جبکہ دو دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ "

ایف سی کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ سرچ آپریشن کے دوران مارے جانے والے باغی تربت میں بیس بے گناہ پنجابی مزدورں کے قتل سمیت دہشت گردی کے درجنوں دیگر واقعات میں ملوث تھے۔

انہوں نے بتایا ، ’’ضلع آواران میں مشکے بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا آبائی علاقہ ہے۔ اس علاقے کو بی ایل ایف کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے آج کی کارروائی میں اہم پیش رفت حاصل کی ہے۔ آپریشن میں شدت پسندوں کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کرتے ہوئے وہاں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔ مارے جانے والے شدت پسند ان تیس خواتین اور بچو ں کے اغوا میں بھی ملوث تھے، جنہیں کچھ عرصہ قبل سکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کے دوران بازیاب کروایا تھا۔"

واضح رہے کہ بی ایل ایف نامی تنظیم دو فروری 2009ء کو کوئٹہ میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بحالی مہاجرین کے سربراہ اور امریکی شہری جان سولیکی کے اغوا کے بعد سامنے آئی تھی۔ اس باغی تنظیم نے مغوی کی رہائی کے بدلے گرفتار باغیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

آواران میں ہونے والے سرچ آپریشن اور ڈیرہ بگٹی اور ضلع کوہلو میں ہونے والی جھڑپوں کے حوالے سے ان کالعدم مسلح تنظیموں کا موقف اب تک سامنے نہیں آ سکا ہے۔