1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان ریاستوں کے نئے سرحدی قواعد، سینکڑوں مہاجرین پھنس گئے

ڈیگو کوپولو/ عاطف توقیر24 نومبر 2015

شامی، عراقی اور افغان مہاجرین کو گزرنے دینے اور دیگر ممالک کے شہریوں کو سرحد پر ہی روک دینے سے مقدونیہ کی سرحد پر سینکڑوں افراد پھنس گئے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HBry
Flüchtlinge an der griechisch-mazedonischen Grenze bei Idomeni NEU
تصویر: DW/D. Cupolo

یونان سے مقدونیہ کے راستے مغربی یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد ہزاروں میں تھی، تاہم اب بلقان ریاستوں نے یہ طے کیا ہے کہ صرف مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کو اپنی سرزمین سے مغربی یورپ تک جانے کی اجازت دی جائے۔ تاہم ایران، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد اب اس سرحد پر کھڑے شدید موسم اور دیگر کٹھن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان افراد کو امید ہے کہ شاید کسی روز انہیں اجازت مل جائے کہ وہ مغربی یورپ کے لیے اپنا سفر شروع کر سکیں۔

جمعے کی شب اپنے چار بچوں سمیت صومالیہ سے تعلق رکھنے والا محمد عبدالقدیر آگ کے آلاؤ کے قریب بیٹھا ہے۔ وہ مقدونیہ کی سرحد سے قریب 25 میٹر دور اِیڈومینی کے مہاجر کیمپ میں موجود ہے اور دن پھر جانے کا منتظر ہے جب کہ اس کے سامنے افغان، عراقی اور شامی باشندے ایک ایک کر کے سرحد عبور کرتے جا رہے ہیں۔

Griechenland Flüchtlingsstrom im Regen
غیرجنگ زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو مقدونیہ کی سرحد میں داخل ہونے سے روکا گیا ہےتصویر: Getty Images/M. Cardy

بدھ کے روز عبدالقادر کو مقدونیہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ بلقان ریاستوں نے حال ہی میں ایک نئے معاہدے کا نفاذ کیا ہے، جس کے تحت ’غیرجنگ زدہ‘ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو یورپی یونین جانے سے روک دیا جائے۔ اس نئے ضابطے کے نفاذ نے عبدالقادر کا مغربی یورپ پہنچنے کا سارا منصوبہ چوپٹ کر دیا۔ وہ اب یہیں آگ کے قریب بیٹھا یہ شکایت کر رہا ہے کہ اس کی کمر میں شدید تکلیف ہے، کیوں کہ اسے الشباب کے عسکریت پسندوں نے بری طرح پیٹا تھا۔

’’میں ایک ریستوران کا مالک تھا اور میں الشباب کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ تو الشباب کے عسکریت پسند آئے اور انہوں نے اپنی رائفلوں کے دستوں سے مجھے بہت زدوکوب کیا۔ اگلے ہی روز میں نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ ہمیں صومالیہ چھوڑنا ہو گا۔‘‘

عبدالقادر دیگر 45 صومالی باشندوں کے ساتھ مقدونیہ کی سرحد کے قریب یونانی مہاجر بستی اِیڈومینی تو پہنچ گئے، تاہم اس گروپ صرف مقدونیہ میں داخلے ہی سے نہیں روکا گیا، بلکہ مہاجر بستی میں اسے دیگر مہاجرین کی جانب سے تفریق کے رویے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ گرم خیمے میں اسے داخل نہیں ہونے دیا جاتا اور اسے سخت سردی میں آگ کے الاؤ کے پاس بیٹھ کر شب بسری کرنا پڑتی ہے۔

فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے صومالی صحافی عبدالرشید علی مالِن کا کہنا ہے، ’’صومالیہ میں گزشتہ 25 برس سے خانہ جنگی جاری ہے۔ مگر یہ کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ انسانی حقوق سب کے لیے برابر ہونے چاہیں۔ ہمیں بھی مساوی موقع ملنا چاہیے کہ ہم آزاد اور محفوظ رہیں۔‘‘