1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلغاریہ میں پھنسے ہزارہا مہاجرین اور تارکین وطن

شمشیر حیدر اے ایف پی
23 اگست 2017

فہیم جبار ایک بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کے سفر پر نکلا تھا۔ لیکن سرحدیں بند ہو جانے کے بعد وہ بھی سینکڑوں دیگر مہاجرین کی طرح بلغاریہ میں پھنس گیا، جہاں امن تو ہے لیکن مہاجرین کے لیے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ihSb
تصویر: DW/A. Montanari

بلقان کی ریاستوں کی جانب سے گزشتہ برس جب اپنی اپنی قومی سرحدیں بند کر دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا، تو جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب گامزن سینکڑوں مہاجرین غریب ترین یورپی ممالک میں سے ایک بلغاریہ میں پھنس گئے تھے۔ شام سے تعلق رکھنے والا فہیم بھی انہی میں سے ایک ہے۔ بلغاریہ میں مہاجرین محفوظ تو ہیں لیکن انہیں خوش آمدید نہیں کہا جاتا اور روزگار کے حصول کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

’مہاجرین چلا چلا کر کہتے رہے کہ آکسیجن ختم ہو رہی ہے‘

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

بلغاریہ میں ماہانہ اوسط تنخواہ 510 یورو ہے، جو مغربی یورپی ممالک کی اوسط تنخواہ کا ایک تہائی بنتی ہے۔ ریاست کی جانب سے مہاجرین کو فراہم کردہ سہولیات بھی تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بحیرہ اسود میں تارکین وطن

فہیم اور اس کے اہل خانہ سن 2016 میں تباہ حال شامی شہر حلب سے یورپ کے سفر پر نکلے تو ان کے خواب کچھ اور تھے لیکن انہوں نے خود کو بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کے نواح میں مہاجرین مخالف مظاہرین کے سامنے کھڑا پایا۔ ستاون سالہ فہیم نے اے ایف پی کو بتایا، ’’وہ لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ ہم نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف مزاحمت کی تھی اور ہم آپ کو بھی قبول نہیں کریں گے، ہم تمہیں کرسچین بنا دیں گے۔‘‘

فہیم کو اپنے خاندان کے ہمراہ ایلن پیلن نامی ایک بلغارین قصبے میں رکنا پڑا لیکن صوفیہ کے اس نواحی قصبے کا میئر خود بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک قوم پرست سیاست دان تھا جس نے فہیم اور اس کے خاندان کو رہائشی اجازت نامہ دینے سے انکار کر دیا۔

فہیم کی بیوی فاطمہ بتاتی ہے کہ اس وقت ’ہم واپس گھر آ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ اس کے بعد ہم دو ماہ تک گھر سے باہر نہیں نکلے‘۔ خوش قسمتی سے ان کے بیٹے محمد کو بلغاریہ میں نوکری مل گئی تھی۔ اس عرصے میں محمد اپنے والدین کے لیے کچھ کھانے پینے کے سامان کا بندوبست کرتا رہا۔

سن 2013 سے لے کر اب تک بلغاریہ میں ساٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔ فہیم اور اس کے خاندان کا تجربہ تو بہت برا رہا تھا لیکن پناہ کے متلاشی دیگر افراد کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

مہاجرت سے متعلقہ امور پر نظر رکھنے والے یاور سیدروف کا کہنا ہے کہ بلغاریہ میں سماجی سطح پر مہاجرین مخالف جذبات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار میڈیا سے لے کر سیاست دانوں اور عوام تک میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔

دوسری جانب بلغاریہ کو افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے اور سیدروف کے بقول حکومت بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہاجرین کو روزگار کی منڈی تک لانا چاہتی ہے تاکہ وہ ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

اس مشرقی یورپی ملک میں پھنسے تارکین وطن اور مہاجرین میں شامی باشندوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کی نمایاں تعداد بھی موجود ہے۔

بلغاریہ: نو پاکستانی اور افغان تارکین وطن ہلاک

رومانیہ: ٹرک پر چاکلیٹ نہیں مہاجرین لدے ہوئے تھے