1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بغداد: حملوں کی تازہ لہر میں 28 افراد ہلاک

12 اکتوبر 2011

بدھ کو بغداد میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے خودکش بم حملوں اور سڑک کے کنارے نصب بم دھماکوں کے واقعات میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/12qj2
تصویر: AP

عراقی دارالحکومت میں یہ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں لگاتار بم حملوں کا دوسرا دن ہے۔

پولیس کے مطابق ایک خودکش بمبار نے اپنی دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی گاڑی مرکزی ضلع علویہ کے ایک پولیس اسٹیشن سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں 8 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہو گئے۔ ایک اور خودکش بمبار نے شہر کے علاقے حریہ میں پولیس کی عمارت کے باہر اپنی گاڑی کو بارود سے اڑا دیا۔ اس حملے میں 8 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوئے۔

پولیس کے لیفٹیننٹ نادر عادل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ایک گاڑی حفاظتی جنگلے کو توڑتی ہوئی آئی اور سیمنٹ کی رکاوٹ سے ٹکرا کر رک گئی، جس کے بعد اس کے ڈرائیور نے گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘‘ حریہ کے دھماکے میں پولیس کی گاڑیاں جل گئیں اور عمارت کی حفاظتی دیواروں کو نقصان پہنچا۔ حریہ میں ہی فوج کی ایک گشت کرنے والی گاڑی سڑک کے کنارے نصب بم سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور 12 زخمی ہوئے۔

Irak Ministerpräsident Nuri al-Maliki
رواں ہفتے وزیر اعظم نوری المالکی نے کہا تھا کہ امریکی فوجی تربیت کاروں کے طور پر ملک میں موجود رہ سکتے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

جنوبی ضلع علام میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں پولیس کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں تین افراد مارے گئے جبکہ بغداد کے مغربی حصے میں واقع ضلع وشاش میں پولیس کی گاڑی سڑک کے کنارے نصب بم سے ٹکرانے کے باعث دو پولیس افسران ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔

ابھی تک عراق کے کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

پیر کو ضلع وشاش میں یکے بعد دیگرے ہونے والے تین دھماکوں میں کم از کم 10 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

عراقی دارالحکومت میں حملوں کی تازہ لہر حکومت کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ شہروں میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں فوج سے پولیس کے حوالے کرنے کو فی الحال مؤخر کر رہی ہے۔ عراق میں 2006 اور 2007 کے مقابلے میں فرقہ وارانہ خونریزی کے واقعات میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے مگر اب بھی وہاں سنی اور شیعہ عسکریت پسند خطرہ ہیں۔

رواں ہفتے وزیر اعظم نوری المالکی نے کہا تھا کہ امریکی فوجی تربیت کاروں کے طور پر ملک میں موجود رہ سکتے ہیں مگر انہیں قانونی استثناء فراہم نہیں کیا جائے گا، جس کا واشنگٹن اصرار کر رہا ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں