بریوک ناروے کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا، وزیر اعظم
22 جولائی 201222 جولائی 2011ء کو آندرس بیہرنگ بریوک نے دارالحکومت اوسلو میں دوہرے بم دھماکے کے بعد قریبی جزیرے میں لگائے گئے یوتھ کیمپ میں فائرنگ کر دی تھی۔ ان دونوں واقعات میں مجموعی طور پر 77 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بم دھماکوں میں آٹھ جبکہ یوتھ کیمپ پر فائرنگ کے نتیجے میں 69 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر نو عمر تھے۔
اس اندوہناک قتل عام کا ایک برس مکمل ہونے پر ناروے کے وزیر اعظم جینز اسٹولٹنبرگ نے اوسلو میں دھماکوں سے شدید طور پر متاثر ہونے والی حکومتی عمارتوں کے باہر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ اس خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ حملوں کے بعد ناروے کے عوام نے ’’ہمارے روشن خیال اور اعتماد پر مبنی معاشرے میں ثابت قدمی سے انسانیت اور معاشرتی رنگا رنگی کی حفاظت کی۔‘‘ وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا: ’’مجرم نے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا اور ناقابل برداشت تکلیف کا باعث بنا ۔۔۔ اس کے بم اور گولیوں کا مقصد ناروے میں تبدیلی لانا تھا۔ لیکن ناروے کے عوام نے اس کا جواب اپنی روایات کا تحفظ کرکے دیا۔ مجرم ہار گیا، لوگ جیت گئے۔‘‘
شدت پسند ملزم بریوک کا جس کی عمر اب 33 برس ہے، کہنا ہے کہ اس نے یہ حملے ملک کو ’مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی یلغار‘ سے بچانے کے لیے کیے تھے۔ مزید یہ کہ اس نے لیبر پارٹی کے یوتھ کنونشن کو اس جماعت کی غیر ملکیوں سے متعلق پالیسیوں اور بین الثقافتی معاشرے کے بارے میں اس کی حمایت کے باعث نشانہ بنایا تھا۔
اس واقعے کا ایک برس مکمل ہونے پر ناروے بھر میں دعائیہ تقریبات، پھولوں کی چادریں چڑھانے اور یادگاری تقریبات کے علاوہ ایک خصوصی کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم جینز اسٹولٹنبرگ شاہی خاندان کے ساتھ چرچ میں ہونے والی ایک دعائیہ تقریب میں شریک ہوں گے۔ بعد ازاں اسٹولٹنبرگ اوٹویا جزیرے میں فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے ملاقات کریں گے۔ وہ اوٹویا جزیرے پر اپنی جماعت کے نوجوانوں سے بھی خطاب کریں گے۔
aba/ng (AFP, dpa)