1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریوک: فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کروں گا

25 مئی 2012

ناروے میں گزشتہ برس دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں 77 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کرنے والے آندرس بیہرنگ بریوک کا کہنا ہے کہ اگر اسے مجرم تسلیم کرتے ہوئے سزا سنا دی گئی، تو وہ اس سزا کے خلاف اپیل نہیں کرے گا۔

https://p.dw.com/p/1529a
تصویر: Reuters

واضح رہے کہ اس مقدمے میں اس وقت بریوک کی ذہنی حالت پر بحث جاری ہے۔ بریوک گزشتہ برس جولائی میں 77 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری تو قبول کرچکا ہے، تاہم وہ خود کو قصوروار تسلیم نہیں کرتا۔

بریوک کا کہنا ہے کہ اس نے ستتر افراد کا قتل ناروے کو کثیر الثقافتی رجحان اور مسلمانوں کے انضمام سے بچانے کے لیے کیا تھا۔ خیال رہے کہ اگر بریوک کی ذہنی حالت کو درست مان کر اسے سزا دی گئی، تو اسے باقی زندگی جیل میں گزارنا پڑے گی، تاہم اگر اس کی دماغی حالت کو درست قرار نہ دیا، تو اسے باقی عمر پاگل خانے میں بسر کرنا پڑے گی۔

گزشتہ برس 22 جولائی کو بریوک نے اوسلو میں بم دھماکے کیے تھے اور قریبی جزیرے پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نوجوانوں کے کیمپ پر فائرنگ کر کے ستتر افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

Norwegen Attentat Trauer Blumen Utoya Anders Behring Breivik
بریوک گزشتہ برس جولائی میں 77 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرچکا ہےتصویر: dapd

جمعرات کے روز مقدمے کی پیشی کے دوران پینتیس سالہ بریوک کا کہنا تھا، ’’ اگر مجھے سزا دی جاتی ہے تواپیل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘

مقدمے کا مرکزی نکتہ بریوک کی دماغی حالت ہے۔ خیال رہے کہ بریوک کی دماغی حالت سے متعلق پہلی رپورٹ میں بریوک کو نفسیاتی مریض قرار دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ گزشتہ برس عدالت میں پیش کی گئی تھی۔ تاہم دوسری رپورٹ میں بریوک کی ذہنی حالت کو درست قرار دیا گیا تھا، جس کے مطابق بریوک کو سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اگر بریوک کی ذہنی حالت کو درست مان کر عدالت فیصلہ کرتی ہے تو بریوک کو زیادہ سے زیادہ اکیس برس کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ بریوک خود کہہ چکا ہے کہ اُسے پاگل قرار دینے کی کوششیں غلط ہیں۔

بریوک کے مقدمے کا فیصلہ جولائی میں آنے کی توقع ہے۔ اس مقدمے کی سماعت ناروے کے پانچ اعلیٰ جج صاحبان کر رہے ہیں۔

(shs/at (AFP, AP

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید