1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکینا فاسو، عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق

عاطف بلوچ6 نومبر 2014

برکینا فاسو کی فوج، سیاستدان اور سول سوسائٹی ایک سالہ عبوری حکومت کے قیام پر متتق ہو گئے ہیں۔ اس ڈیل کے تحت اس مغربی افریقی ملک میں الیکشن نومبر 2015 میں منعقد کرائے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1Di8O
تصویر: AFP/Getty Images/I. Sanogo

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واگا ڈوگو سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوج، سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے وفود نے بدھ کو ایک ہنگامی ملاقات میں ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے ایک متفقہ طریقہ کار پر اصولی اتفاق کر لیا ہے۔

یہ مذاکرات تین مغربی افریقی ممالک کے صدور کی ثالثی میں ہوئے لیکن اس دوران ملک کے نئے عبوری رہنما کے نام پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ بتایا گیا ہے کہ نائجیریا، سینیگال اور گھانا کے صدور کے علاوہ ملکی مذہبی اور قبائلی رہنما بھی اس مذاکراتی عمل کا حصہ تھے۔

Burkina Faso - Oberst Isaac Zida
لیفٹیننٹ کرنل آئزک زیداتصویر: ISSOUF SANOGO/AFP/Getty Images

ان مذاکرات کے بعد گھانا کے صدر جان درامانی ماہاما نے کہا کہ انہیں اس بات کی کوئی حیرانی نہیں ہے کہ فریقین اس مرحلے پرعبوری حکومت کے سربراہ کے لیے کسی کو نامزد کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ان مذاکرات کا کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں مکمل مشاورت کے بعد ہم کسی شخصیت کو اس عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر چن لیں گے۔‘‘

جان درامانی ماہاما کے بقول نیا رہنما کا انتخاب برکینا فاسو کے عوام کا فیصلہ ہو گا، ’’انہی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کسے سربراہ چنا جائے۔‘‘ موجودہ سیاسی بحران کے تناظر میں انہوں نے مزید کہا کہ عوام کے ذہنوں میں تکلیف کی کیفیت ابھی تازہ ہے۔

گزشتہ ہفتے ہی برکینا فاسو میں عوامی مظاہروں کے نتیجے میں صدر بلیس کمپاؤرے مستعفی ہو کر ہمسایہ ملک آئیوری کوسٹ فرار ہو گئے تھے۔ جس کے بعد فوج نے لیفٹیننٹ کرنل آئزک زیدا کو ملک کا نگران صدر مقرر کر دیا تھا۔ اس پر اپوزیشن، سول سوسائٹی اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے فوج مخالف مظاہرے بھی شروع کر دیے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ فوج اقتدار سے الگ ہو اور کسی سول شخصیت کو عبوری رہنما بنایا جائے۔

صورتحال میں کشیدگی کے بعد عالمی برداری نے بھی فوج پر دباؤ دیا تھا کہ وہ اقتدار پر قابض نہ ہو۔ اقوام متحدہ نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر اقتدار سول قیادت کو نہ سونپا گیا تو پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ برکینا فاسو کے عوام اور عالمی دباؤ کے بعد آئزک زیدا نے تین مغربی افریقی ممالک کی ثالثی میں اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام کیا تھا، جو بظاہر کامیاب قرار دیے گئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں