1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برٹش لائبریری کا طالبان دور کی دستاویزات رکھنے سے انکار

افسر اعوان28 اگست 2015

تعلیمی ماہرین نے برطانوی حکومت کو ’خوف کی فضا‘ پیدا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ پیشرفت برطانیہ کی نیشنل لائبریری کی طرف سے طالبان دور کے مواد کے ایک بڑے ذخیرے کو نمائش کے لیے رکھنے سے انکار کے بعد سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GNax
تصویر: Getty Images/AFP/L. Neal

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برٹش نیشنل لائبریری کی طرف سے یہ فیصلہ اس خوف کے باعث کیا گیا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان دور کے یہ دستاویزات اور دیگر ریکارڈز رکھے گئے تو اسے برطانیہ میں رائج دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بین الاقوامی ماہرین کے ایک گروپ نے برسوں کی محنت شاقہ کے بعد افغان طالبان سے متعلق دستاویزات کا ’خزانہ‘ جمع کیا ہے۔ ان میں طالبان کے دور حکومت کے اخبارات، نظمیں، نقشے، ریڈیو پروگرامز، قوانین اور جاری کیے جانے والے احکامات شامل ہیں۔ ان جمع شدہ دستاویزات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اس کام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترجمہ شدہ الفاظ کا مجموعہ دو سے تین ملین الفاظ بنتا ہے۔ ان تمام دستاویزات اور مواد کو ڈیجیٹل فارم میں بھی تبدیل کیا گیا۔

اس پراجیکٹ کا آغاز 2012ء میں کیا گیا تھا۔ اس کام میں برٹش لائبریری کے ماہرین شامل بھی تھے اور انہیں ایڈوائزری بورڈ میں بھی رکھا گیا تھا۔ یہ منصوبہ اس امید کے ساتھ شروع کیا گیا تھا کہ اس سے حاصل شدہ بے مثال معلومات سے نہ صرف تعلیمی ماہرین بلکہ ایسے حکام بھی استفادہ حاصل کر سکیں گے جو افغانستان میں اب تک جاری انتہا پسند طالبان کی خونریز بغاوت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

امید کی جا رہی تھی کہ اس تمام تر ڈیجیٹلائز دستاویزات اور مواد کی ماسٹر کاپی برٹش لائبریری میں نمائش کے لیے رکھی جائے گی تاہم عین وقت پر لائبریری کی انتظامیہ کی طرف سے اس پراجیکٹ کے منتظمین کو بتایا گیا کہ انہیں خوف ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں برطانیہ کے انسداد دہشت گردی قانون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

طالبان کے دور حکومت کے اخبارات، نظمیں، نقشے، ریڈیو پروگرامز، قوانین اور جاری کیے جانے والے احکامات بھی جمع شدہ مواد میں شامل ہیں
طالبان کے دور حکومت کے اخبارات، نظمیں، نقشے، ریڈیو پروگرامز، قوانین اور جاری کیے جانے والے احکامات بھی جمع شدہ مواد میں شامل ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Karimi

جرمن دارالحکومت برلن سے تعلق رکھنے مصنف اور محقق ایلکس سٹرِک فان لنشوٹن کے مطابق، ’’یہ حیران کن اور مایوس کن ہے۔‘‘ اس پراجیکٹ میں مدد کرنے والے لنشوٹن مزید کہتے ہیں، ’’اس میں نہ تو بم بنانے کے طریقے بتائے گئے ہیں اور نہ ہی اسی طرح کی کوئی اور چیز ہے۔ اس میں دستاویزات ہیں جو تاریخ کو سمجھنے میں مدد دیں گی بلکہ وہ افغان جو اپنے ماضی قریب کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں یا باہر کے لوگ جو اس تحریک کو سمجھنا چاہتے ہوں۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق برطانیہ کے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2000 اور 2006 کے مطابق اس طرح کا کوئی بھی مواد اپنے قبضے میں رکھنا جرم ہے جو دہشت گردی یا اس کی تیاری کے لیے استعمال ہو سکے۔ اس قانون کے تحت دہشت گردی سے متعلق مواد کا پھیلاؤ بھی جرم ہے۔

برٹش لائبریری کی ایک خاتون ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ لائبریری ’’فی الحال ان دستاویزات کی نقل حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ معلومات کا ایک بڑا ڈیجیٹلائزڈ ذخیرہ ہے جسے رکھنا دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔