برلن واقعہ، مبینہ طور پر ’پاکستانی‘ پناہ گزین کی کارروائی
20 دسمبر 2016پیر کی شام قریب آٹھ بجے برلن کے مرکزی علاقے برائٹشائیڈ پلٹس کے نزدیک قائم ایک تاریخی چرچ اور یورپی سینٹرکے سامنے لگی ہوئی ایک کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے ٹرک حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 12 ہو چُکی ہے جبکہ 48 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ برلن کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی سی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جرمن اخبار ’ڈی ویلٹ‘ نے سب سے پہلے اس بارے میں رپورٹ شائع کی کہ جس ٹرک کے ذریعے حملہ کیا گیا اُس کا ڈرائیور پاکستانی مہاجر یا پناہ گزین ہے جسے پولیس نے وقوعہ سے خاصے دور برلن کے ایک اور مشہور علاقے سے گرفتار کیا۔ اس علاقے میں برلن کا مشہور زمانہ وکٹری کالم موجود ہے۔
دریں اثناء برلن کی پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ مشتبہ شخص جس ٹرک کو اپنی اس کارروائی کے لیے بروئے کار لایا وہ پولینڈ کی ایک تعمیراتی کمپنی کا ہے اور اس پر لگی نمبر پلیٹ نومبر کے ماہ میں جاری کیا گیا تھا۔ پولیس کا ماننا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ ٹرک چُرایا گیا تھا۔
جرمن اخبار ’ڈی ویلٹ‘ کی اطلاعات کے مطابق کئی روز سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ برلن کی کرسمس مارکٹس پر دہشت گردانہ حملوں کے امکانات خاصے زیادہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ٹرک جس وقت کرسمس مارکیٹ پر چڑھائی کرتا ہوا اس پورے علاقے کو روندنے کے لیے اس کی جانب بڑھ رہا تھا اُس وقت اس کی لائیٹیں نہیں جل رہی تھیں۔ برلن پولیس کے ایک ترجمان ونفریڈ وینسل کے مطابق، ’’اس ممکنہ ڈرائیور کی گرفتاری انتہائی ڈرامائی انداز میں عمل میں آئی۔ کرسمس مارکیٹ پر چڑھائی کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ڈرائیور ٹرک سے اُتر کر تیزی سے ٹیئرگارڈن کے علاقے کی طرف چل پڑا۔ ایک عینی شاہد اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا، اُسی نے پولیس کو اس مشتبہ شخص کے بارے میں مطلع کیا۔‘‘ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مشتبہ شخص غالباً رات کے اندھیرے میں ٹیئر پارک کے اندر چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اخبار ’ڈی ویلٹ‘ کے مطابق کرسمس مارکیٹ پر چڑھائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹرک کا ڈرائیور غالباً پاکستانی یا افغان تھا جو پناہ گزین کی حیثیت سے 16 فروری 2016 ء کو جرمنی پہنچا تھا۔