برطانیہ میں گرفتار مزید دو پاکستانی طالب علم اسلام آباد پہنچ گئے
22 اگست 2009اسلام آباد ایئر پورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان طلباء کے وکیل ملک امجد نے کہا کہ دہشت گردی کے شبے میں گرفتار پاکستانی طلباء پر کوئی بھی جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود دوران حراست انہیں سخت ناروا اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ وکیل کے مطابق برطانوی جیل میں طلباء کو کتوں کے ذریعے تلاشی لے کر ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
ملک امجد نے برطانوی حکام پر اپنے ہی ملک کے امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے کہا :’’دہشت گردی کے شبے میں کسی بھی برطانوی شہری کو 28 دنوں تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی طلباء کو انہوں نے21 اپریل تک حراست میں رکھا اور اس کے بعد ثبوت نہ ہونے کے باعث کہا کہ آپ کو چارج نہیں کیا جاتا۔ قانونی لحاظ سے اس کے بعد انہیں رہا کر دیا جانا چاہئے تھا اس کے بعد امیگریشن پراسیس میں برطانوی حکام نے تقریباً چار ماہ تک رکھا ہے، اس کے بعد انہوں نے دس ماہ کی تاریخ لگا دی ہے میرے خیال میں بچوں کےلئے دس مہینے کے بعد طلباء کو بحال ہونے میں کافی مشکل ہوتی۔‘‘
خیال رہے کہ گزشتہ اپریل میں برطانوی پولیس نے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں مختلف شہروں میں چھاپے مار کر 10 طلباء سمیت 11 پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا تھا، جنہیں بعد ازاں عدم ثبوت کی بناء پر رہا تو کر دیا گیا لیکن پھر برطانوی بارڈر ایجنسی نے انہیں ملک بدر کرنے کےلئے دوبارہ حراست میں لے لیا تھا۔ ہفتے کو وطن واپس پہنچنے والے طالب علم عبدالوہاب نے بتایا کہ بغیر جرم ثابت کرکے جیل میں انہیں خطرناک قیدیوں کے ساتھ رکھ کر ناانصافی کی گئی۔
دوسری جانب اسلام آباد میں برطانوی سفارت خانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان واپس آنے والے طلباء کے الزامات میں صداقت نہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ دوران حراست کسی قسم کا برا سلوک نہیں کیا گیا جبکہ ادھر برطانیہ میں تاحال گرفتار طلباء کے لواحقین حکومت پاکستان پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ ان طلباء کی باعزت رہائی کے لئے سفارتی کوششیں تیز کرے جبکہ گرفتار کئے گئے طلباء کو وہیں رہ کر اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت بھی دی جائے۔
رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر