1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں معلق پارلیمان کا امکان

23 اپریل 2010

برطانیہ میں چھ مئی کے انتخابات سے پہلے بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ٹیلی وژن مباحثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔

https://p.dw.com/p/N4nq

دوسری طرف رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق چھوٹی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما کی مقبولیت میں اضافہ دونوں بڑی جماعتوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ برطانیہ کی تاریخ کا وہ پہلا الیکشن ہے جس سے قبل سیاسی رہنما اس نوعیت کے لائیو مباحثوں میں شرکت پر راضی ہوئے۔ ان مباحثوں کی وجہ سے ایک طرف اگر انتخابی مہم میں تیزی آئی ہے تو دوسری طرف سیاسی پارٹیوں میں عوامی دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے۔

حکمران لیبر پارٹی، اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت اور لبرل ڈیموکریٹس کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے دوسرے ٹی وی مباحثے کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مباحثے میں کوئی بھی امیدوار اپنے حریف سیاستدانوں پراپنی برتری ثابت نہ کر سکا۔ مباحثے کے دوران لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم گورڈن براؤن اور قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی کے ڈیوڈ کیمرون Libdems کہلانے والی چھوٹی جماعت کے رہنما نک کلیگ کی وجہ سے کافی دباؤ میں نظر آئے۔ وزارت عظمٰی کے لئے امیدواروں کے درمیان پچھلے ہفتے ہونے والے اسی نوعیت کے پہلے ٹیلی وژن مباحثے میں نک کلیگ کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے ان کی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی مقبولیت میں خاطرخواہ اضافہ ہو گیا تھا، جس کے بعد انتخابی ماحول بھی بدل گیا۔ اب آئندہ انتخابات میں دو بڑی جماعتوں کے بجائے تین سیاسی پارٹیوں کے درمیا ن کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما ڈیوڈ کیمرون نے اس مباحثے میں کہا کہ عوام اب سیاستدانوں کے ان دعووں سے تنگ آ چکے ہیں کہ عوامی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’عوام سیاستدانوں کے ایسے بیانات سے بے زار ہو چکے ہیں جن میں وہ یہاں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ یورپ کے حوالے سے برطانوی عوام کے مفادات کے لئے جدوجہد کی جائے گی۔ اور یہ کہ برطانیہ کو اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کے بجائے ان کے لئے لڑنا چاہیے۔ مگر جب یہ سیاستدان برسلز جاتے ہیں تو اپنے ہی الفاظ کے عملا نفی کر دیتے ہیں۔‘‘

جمعرات کی رات ہونے والے مباحثے کے بعد بعض ماہرین کے مطابق ڈیوڈ کیمرون، اور کچھ کے خیال میں نک کلیگ کی پوزیشن زیادہ مستحکم تھی۔ اس مباحثے کے حوالے سے برطانیہ کی برُونل یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر جسٹن فشر کہتے ہیں کہ یہ مباحثہ فیصلہ کن تھا۔ ان کے بقول ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت اس حد تک اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی کہ اکیلے حکومت سازی کر سکے۔

اس سے پہلے گزشتہ مباحثے کے دوران لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما نک کلیگ کو اپنے دونوں حریفوں گورڈن براؤن اور ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس دوران عالمی امور، خارجہ پالیسی، جوہری معاملات، تارکین وطن کی آمد روکنے اور برطانیہ کی یورو اتحاد میں ممکنہ شمولیت جیسے موضوعات پر بات ہوئی تھی۔

لبرل ڈیموکریٹس کے نک کلیگ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں رہتے ہوئے برطانوی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نک کلیگ کے مطابق یورپی یونین میں سامیت دشمن یا سخت گیر مؤقف کے حامل افراد کے ساتھ مل کر برطانیہ یا برسٹل کے شہریوں کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ یورپی یونین میں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں جیسے حقائق کی بھی نفی کرتے ہیں۔

اس مباحثے میں تمام مبصرین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کس سیاستدان کی کارکردگی زیادہ متاثر کن ہے۔ اسی لئے پہلے مباحثے کے دوران تینوں رہنماؤں کا انداز جارحانہ تھا۔ نوے منٹ تک جاری رہنے والی اس بحث میں تینوں ہی رہنماؤں نے افغانستان کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔

گورڈن براؤن نے اپنی حکو متی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے مخالفین پر الزام عائد کیا کہ یہ رہنما برطانیہ کو جوہری حملے کے خطرات سے دوچار کرنے کے علاوہ یورپ میں تنہا بھی کر دیں گے۔ وزیراعظم گورڈن براؤن نے ڈیوڈ کیمرون کو ’’یورپ مخالف‘‘ اور نک کلیگ کو ’’امریکہ مخالف‘‘ قرار دیا تھا۔ براؤن کے بقول ان کے دونوں بڑے حریف سیاستدانوں کا رویہ بہت بچگانہ ہے۔ ان امیدواروں کے بارے میں برطانوی وزیراعظم کہتے ہیں کہ ’’انہیں دیکھ کر مجھے اپنے وہ دونوں چھوٹے بچے یاد آتے ہیں، جو نہاتے ہوئے آپس میں مسلسل تکرار کرتے رہتے تھے۔‘‘

نک کلیگ کے مطابق برطانوی عوام کو اگلی حکومت سے بہت سی امیدیں ہیں اور مخلوط حکومت بننے کی صورت میں سب کو اجتماعی مفادات کے لئے کام کرنا ہو گا۔ ڈیوڈ کیمرون نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بھی مخلوط حکومت طویل المدتی منصوبوں کے بارے میں بڑے فیصلے نہیں کر سکے گی۔

پہلے ٹی وی مباحثے کے بعد لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما نک کلیگ میں میڈیا اور ووٹروں کی دلچسپی یکدم بڑھ گئی اور کچھ حلقوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ شاید امریکہ میں باراک اوباما کی طرح کے سیاسی امیدوار ثابت ہوں گے، جو خلاف توقع اگلے الیکشن جیت بھی سکتے ہیں۔

رپورٹ: بخت زمان یوسفزئے

ادارت: مقبول ملک