1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: مسلم مخالف حملوں کو سام دشمنی کی طرح دیکھا جائے

عدنان اسحاق13 اکتوبر 2015

برطانیہ میں مذہبی منافرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ لندن حکومت کے مطابق مسلم مخالف جرائم کو الگ درجہ دیتے ہوئے انہیں بھی سامی دشمن حملوں کے زمرے میں دیکھا جائے۔

https://p.dw.com/p/1GnQJ
تصویر: Getty Images/AFP/J. Taylor

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے آج منگل کے روز کہا کہ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔ انہوں نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا، جب آج جاری ہونے والے ایک جائزے میں واضح کیا گیا ہے کہ رواں برس کے دوران اب تک مذہب مخالف حملوں 43 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی تناظر میں کیمرون نے پولیس کو مسلم مخالف حملوں کو ایک الگ درجہ دینے کا حکم دیا ہے۔ آج منگل کے روز ہی کیمرون ملک کے مسلم رہنماؤں سے مل کر اس سلسلے میں اپنی منصوبہ بندی کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ اجلاس ملک میں ’انسداد دہشت گردی‘ کے سلسلے میں قائم کیے جانے والے نئے فورم کا پہلا اجلاس ہے۔

کیمرون کے بقول، ’’انتہا پسندی ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ہمیں برطانیہ کو مزید بڑا ملک بنانے کے لیے اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کے بقول اس سلسلے میں تمام شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’اسی لیے میں نے اس فورم میں مسلم اور غیر مسلم حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دعوت دی ہے تاکہ مجھے معاشرے میں ان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں، ان کو درپیش مسائل کا براہ راست علم ہو سکے۔ اس طرح تمام حلقے مل کر ’’ایک قوم‘‘ نامی حکمت عملی کا حصہ بنتے ہوئے انتہا پسندی کو شکست دے سکیں۔‘‘

Großbritannien Premierminister David Cameron in London
تصویر: picture alliance/Photoshot

پولیس کے مطابق ملک بھر میں نفرت پر مبنی ساڑھے باون ہزار جرائم رونما ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد چوالیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ پولیس نے ان میں اسی فیصد کو نسلی اور مذہبی امتیاز کے واقعات قرار دیا ہے۔

برطانیہ کی مسلم کونسل کے سربراہ شجاع شفی کے مطابق مسلم مخالف حملوں کو روکنا اسلاموفوبیا کو درست اور معتبر طریقے سے جانچے کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ملک میں موجود تمام عبادت گاہوں بشمول مساجد کی حفاظت کے لیے مزید رقوم مختص کیے جانے کا اعلان بھی سامنے آنے والا ہے۔

برطانوی وزیر داخلہ تھیریسما مے نے کہا کہ اس بارے میں مزید تفصیلات اکھٹی ہونے سے مذہبی طور پر متعصبانہ واقعات کی روک تھام کے حوالے پالیسی تیار کرنے اور مختلف کمیونیٹیز کے مابین اعتماد کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ ’’ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہماری پالیسی اس ماہ کے آخر میں شائع کر دی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی ایسے بہت سے اقدامات کا اعلان بھی کیا جائے گا، جن کی مدد سے ہر طرح کی انتہاپسندی کو شکست دینے میں مدد ملے گی۔‘‘