’بدصورت سچ‘، امریکا میں نسل پرستی کا خاتمہ ابھی دور
27 جون 2015جمعے کے روز چارلسٹن میں واقع سیاہ فام امریکی باشندوں کے چرچ میں چند روز قبل پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعے کے متاثرین کو یاد کرتے، ان کے لیے گیت گاتے اور شمعیں جلاتے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرنا ان متاثرین سے ایک طرح کا دھوکا ہو گا:’’ابھی اس چرچ میں ان متاثرین کے لیے جو کچھ کہا گیا، ہماری خاموشی اس کہے سنے سے دغا ہو گی۔ یہ نہ ہو کہ کیمرے آگے بڑھ جائیں تو یہاں پھر خاموشی چھا جائے۔‘‘
انہوں نے امریکی عوام سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کو بھلا کو دوبارہ اپنی روزمرہ زندگی میں مشغول نہ ہو جائیں۔ چارلسٹن حملے میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام پادری اور سیاستدان کلیمنٹا پنکنی کی آخری رسومات میں شریک باراک اوباما نے اپنے 40 منٹ دوانیے کے خطاب میں پنکنی کی زندگی اور خدمات کو موضوع بنایا۔ سیاہ فام پنکنی جنوبی کیرولائینا کی سینیٹ کے رکن تھے اور وہ سن 2000 سے اس عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس سے قبل وہ جنوبی کیرولائینا کے ایوانِ نمائندگان کے رکن بھی رہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ ایک سفید فام کے ہاتھوں پنکنی اور ان کے ہمراہ آٹھ مزید سیاہ فام افراد کے قتل سے بہت سنجیدہ سوالات نے جنم لیا ہے۔
اوباما نے کہا اب امریکی ریاستوں میں سے کانفیڈریٹ پرچم اتارنے کا وقت آ گیا ہے۔ ’اس پرچم کو عمارات سے اتارنے سے امریکی خانہ جنگی کے دور میں جنوبی خطے سے جنگ کرنے والے فوجیوں کی تکریم میں کمی نہیں آئے گی۔‘ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس جنگ کا مقصد انسانوں کو غلام بنانے کے حق میں تھا، جو ایک غلط مقصد تھا۔ اس وقت رنگ و نسل کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کی وجہ سے مساوی شہری حقوق کی تحریک کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
’یہ ایک سچا قدم ہو گا کہ ہم امریکی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اور اعتدال پسندی کے ساتھ اس تاریخ سے متاثرہ افراد کے زخم بھرنے کی کوشش کریں۔‘
صدر اوباما نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ چارلسٹن چرچ حملے سے امریکی معاشرے میں نسل پرستی کی موجودگی کے حوالے سے عوام میں شعور بڑھے گا اور اس طرح اس کے سدباب میں آسانی ہو گی۔