1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم کے ذریعے اسپین پہنچنے کا انتہائی خطرناک راستہ

شمشیر حیدر اے ایف پی
9 جولائی 2017

اس برس جنوبی ہسپانوی ساحلوں پر پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد پچھلے برس کی نسبت دگنی سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ اٹلی کی جانب سے مزید مہاجرین قبول نہ کرنے کے اعلانات کے بعد مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافے کے خدشات ہیں۔

https://p.dw.com/p/2gEJg
Grenze Spanien Marokko
تصویر: Getty Images/AFP/P.P. Marcou

گزشتہ دو برسوں سے یورپ میں جاری مہاجرین کے بحران کے دوران تارکین وطن کی بڑی تعداد وسطی بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یونان اور اٹلی پہنچی تھی۔ گزشتہ برس یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد وسطی بحیرہ روم می بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے یونان اور پھر مغربی یورپ پہنچنا قریب ناممکن ہو گیا تھا جس کے بعد سے زیادہ تر مہاجرین لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم عبور کر کے اطالوی جزیروں پر پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔

اسپین میں مہاجرین کے حق میں بڑا مظاہرہ

سو تارکین وطن زبردستی ہسپانوی علاقے میں داخل ہو گئے

گزشتہ ہفتے روم حکومت نے بھی آخرکار یہ کہہ دیا ہے کہ اٹلی میں مزید تارکین وطن کو پناہ دینے کی گنجائش نہیں رہی۔ اٹلی مہاجرین کا بوجھ بانٹنے کے لیے یونین کے دیگر ارکان سے مدد کا خواہاں ہے، جس پر ابھی تک مثبت پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔

تربیت کے بعد مہاجرین کی ملک بدری ۔ جرمن کمپنیوں کی مشکل

اٹلی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اب زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے جنگ زدہ خطوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن مغربی بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سن 2017 میں اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے بدھ سے لے کر ہفتے تک آٹھ کشتیوں میں سوار تین سو اسی تارکین وطن نے بحیرہ البورن کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کی۔

بحیرہ البورن مغربی بحیرہ روم میں مراکش اور اسپین کے درمیان واقع ہے۔ ’SOS Racisme‘ نامی سماجی تنظیم کی ہسپانوی شاخ کے ترجمان میکیل آراگواس نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم اس لیے زیادہ پریشان ہیں کیوں کہ کئی برسوں سے تارکین وطن یہ سمندری راستے اختیار نہیں کر رہے تھے۔ یہ سمندری راستے انتہائی خطرناک ہیں اور یہاں سمندری لہروں کی شدت بہت زیادہ ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے مراکش سے اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی خستہ حال کشتی سمندری لہروں کی تاب نہ لاتے ہوئے الٹ گئی تھی۔ اس کشتی میں کل باون تارکین وطن سوار تھے جن میں سے صرف تین ہی زندہ بچ پائے۔

اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی (یو این ایچ سی آر) نے اس حادثے کو ہسپانوی بحیرہ روم میں اب تک کا ’بدترین حادثہ‘ قرار دیا تھا۔

آراگواس کا کہنا تھا کہ مراکش کے ساحلی محافظ اپنی سمندری حدود کی کڑی نگرانی نہیں کر رہے اور غالبا انہوں نے سرحدی نگرانی کم کر دی ہے تاہم یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرونٹیکس‘ کا بھی کہنا ہے کہ  بظاہر ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد تارکین وطن الجزائر اور مراکش کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے مغربی راستے اختیار کرتے ہوئے ہسپانوی ساحلوں تک پہنچے ہیں۔ گزشتہ پورے سال کے دوران ان راستوں کے ذریعے آٹھ ہزار تارکین وطن اسپین پہنچے تھے۔

ہسپانوی حکومتی ذرائع کے مطابق انسانوں کے اسمگلروں نے بھی ان راستوں کے ذریعے مہاجرین کو اسپین پہنچانے کی قیمتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں کم کر دی ہیں۔

اسپین: ریفریجریٹڈ ٹرک سے آٹھ عراقی برآمد

انسانوں کی اسمگلنگ: پاکستانی گینگ کے خلاف یوروپول کے چھاپے