بحرین میں سیاسی جمود: شعیہ نوجوانوں میں انتہا پسندی کے خطرات
4 مئی 2014سیاہ لباس میں ملبوس درجنوں نوجوان بحرین کے شعیہ اکثریتی آبادی والے گاؤں کی سڑکوں پر پریڈ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں پٹرول بم ہیں اور دیگر نوجوان اس خلیجی ریاست کے سُنی مسلم شاہی نظام اور بحرین کے خلیفہ کی ملامت کر رہے ہیں۔ عرب خلیجی ریاست بحرین پر 18 ویں صدی سے بادشاہت قائم ہے۔
چند نقاب پوش مرد آگ کے ایک دائرے کے ارد گرد کودتے اور خار دار تار کے نیچے سے گزرنے کی مشق کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی صحرا کے ٹریننگ زون میں ہیں۔ اُن کے ہاتھوں میں گھر میں تیار شدہ بم نما چیزيں دکھائی دے رہی ہے۔ اس قسم کے مناظر گزشتہ چند مہینوں سے آن لائن ویڈیوز کے ذریعے نشر کیے جا رہے ہیں۔ یہ بحرین کی شعیہ برادری اور وہاں بادشاہی اور مطلق العنانیت کے خلاف اور سیاسی اصلاحات کے حق میں آواز اُٹھانے کی کوشش کرنے والوں کی طرف سے حکمرانوں کے ليے ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔
بحرین میں ديسی ساخت کے بموں سے حملوں کا سلسلہ کچھ عرصے سے تیزی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ امر تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس سے شعیہ نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحان میں اضافے کی نشاندہی ہورہی ہے۔ گرچہ بحرین کے شعیہ نوجوانوں کا یہ گروپ مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں میں پائے جانے والے شعیہ عسکریت پسند گروپوں، جیسے کہ لبنان کے حزب اللہ یا عراق کی مہدی آرمی جتنا مضبوط اور حجم میں اُن جتنا بڑا نہیں ہے اور ديسی ساختہ بموں کا استعمال بحرین کے اکثر علاقوں کی روز مرہ زندگی کو بھی اُس طرح متاثر نہیں کر رہا جیسے کہ مذکورہ عسکریت پسند گروپ کر رہے ہیں تاہم اس سے شعیہ نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی مایوسی اور محرومی کا اندازہ ہو رہا ہے۔
سیاسی جمود
اسٹریٹیجک اعتبار سے بحرین خلیج عرب کی ایک اہم بادشاہت ہے جہاں امریکا کا پانچواں بحری بیڑا موجود ہے۔ یہاں ہلکی نوعیت کی تاہم تسلسل سے جاری بدامنی رفتہ رفتہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نظر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا ثبوت 2011 ء میں فروری اور مارچ کے مہینے میں ’عرب بہار‘ سے متاثر ہو کر بحرین میں شعیہ باشندوں کی طرف سے شروع کی جانے والی بغاوت ہے، جسے سُنی بادشاہت کی طرف سے بُری طرح کچل دیا گیا۔ تاہم اس آگ کی چنگاریاں پورے خطے میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ خلیج عرب کے پورے خطے میں سعودی عرب کی سنی بادشاہت اور ایران کی شعیہ حکومت کی پشت پناہی میں خوفناک شعیہ سُنی مخالفت اور فرقہ وارانہ فسادات کی آگ پھیلتی جا رہی ہے۔
بحرین کے شعیہ اکثریتی آبادی والے ایک گاؤں الجننبیہ سے تعلق رکھنے والے ایک 21 سالہ نوجوان نے نيوز ايجنسی روئٹرز کو ایک فرضی نام سے بیان دیتے ہوئے کہا،" ہم اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم میں سے بہت سوں نے اپنے خاندان کا ایک نہ ایک فرد کھویا ہے۔ ہم ہر اُس شخص کے خلاف لڑیں گے جو ہمیں مار رہا ہے۔ ہم اُس تحریک کو لے کر آگے بڑھیں گے جو ہمارے باپ، دادا اور بھائیوں نے شروع کی تھی" ۔
بم حملوں کی ویڈیو
انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی ویڈیو میں بہت سے نوجوانوں کو 14 فروری کے یوتھ کولیشن کا جھنڈا اُٹھائے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعے تشکیل شدہ ایک گروپ ہے جو 2011 ء میں ہونے والے بڑے عوامی مظاہروں کو سکیورٹی فورسز کی طرف سے کچل دیے جانے کے بعد سے ماناما حکومت کے خلاف آئے دن مظاہروں کا انعقاد کرتا ہے۔ شعیہ برادری کی طرف سے تقریباً روز ہی چھوٹے پیمانے پر مظاہرے کیے جاتے ہیں جن میں مظاہرین سُنی شاہی فیملی سے ملک میں ایک آئینی بادشاہت کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس گروپ کی طرف سے آن لائن جاری کی جانے والی کچھ ویڈیوز میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے مبینہ بم حملے دکھائے گئے ہیں جن میں پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ ان ویڈیوز کے پس منظر میں کبھی کبھی حزب اللہ کے چیف سید حسن نصراللہ کی تقاریر کے اقتباسات بھی چل رہے ہوتے ہیں۔
مبصرین، تجزیہ کاروں اور سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے خاص طور سے پولیس پر ہونے والے بم حملوں میں تیزی اور ان کے زیادہ مہلک ہونے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حملہ آور دو سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ تجربہ کار اور تربیت یافتہ ہو گئے ہیں۔