1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحران زدہ خطّوں میں صحافیوں کو درپیش خطرات

16 ستمبر 2009

ایک صحافی کے لئے پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دینا یوں تو کبھی بھی آسان نہیں ہوتا کیونکہ ہر دن ایک نئی اسٹوری، روز ایک نیا چیلنج، لیکن بحران زدہ خطّوں میں کام کرنا ہمیشہ ہی خطرناک ہوتا ہے اورکبھی کبھی جان لیوا بھی!

https://p.dw.com/p/Ji50
تصویر: AP

ظفر اقبال پیشے سے ایک صحافی ہیں اور بھارت کے زیر انتظام ریاست جموّں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جمّوں میں بھارتی نجی ٹیلی وژن چینل NDTV کے خصوصی نمائندے ہیں۔ مئی سن 2002ء میں نامعلوم مسلح افراد نے شورش زدہ ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ظفر اقبال پر ’پوائنٹ بلینک رینج‘ سے یکے بعد دیگرے تین گولیاں چلائیں تاہم وہ معجزاتی طور پر بچ گئے۔

وہ کہتے ہیں:’’میں کام کر رہا تھا تو ہمارے دفتر پر ایک حملہ ہوا۔ حالانکہ مجھے تین گولیاں لگیں لیکن اس کے باوجود میں معجزاتی طور پر بچ گیا۔ بحران زدہ خطّوں میں صحافیوں کے لئے بہت ساری مشکلات اور دقتیں ہوتی ہیں۔‘‘

Journalist Chris Tomlinson mit den Truppen während des Krieges im Irak ,embedded journalists
عراق میں تعینات امریکی فوج کے ایک عارضی کیمپ میں کرس ٹوملنسن نامی ایک صحافی کھانا کھاتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: AP

’’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘

سن 2002ء میں ظفر اقبال سری نگر میں ایک انگریزی روزنامے ’’کشمیر امیجز‘‘ کے ساتھ بطور ’’سب ایڈیٹر‘‘ کام کرتے تھے۔ ڈوئچے ویلے اردو سروس سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کے لئے بہترین جواب یہ ہوتا ہے کہ صحافی اور زیادہ شدت کے ساتھ کوشش کریں کہ ان کی رپورٹیں، تحریریں اور جائزے غیر جانبدار، شفاف اور سچائی پر مبنی ہوں۔

Australien untersucht Journalistentod in Osttimor FREIES FORMAT
پانچ آسٹریلوی صحافی برائن پیٹرس، ٹونی اسٹیورٹ، گیری کننگہم، میلکم رینی اور گریگ شیکلیٹن، یہ تمام ہی سن 1975ء میں اس وقت مارے گئے جب انڈونیشیا کے فوجیوں نے مشرقی تیمور پر حملہ کیاتصویر: dpa

’’مجھ پر حملے کے بعد میرے تمام دوستوں، رشتہ داروں، اہل خانہ اور ساتھیوں نے میری حوصلہ افزائی اور مدد کی، جس سے میری ہمت اور زیادہ بڑھی۔ یہی وجہ رہی کہ تمام دقتوں اور مشکلات کے باوجود میں دوبارہ اپنا کام کر پایا۔ جب آپ صاف و شفاف ہوں تو آپ میں کھویا ہوا اعتماد دوبارہ بحال ہونے میں دیر نہیں لگتی۔‘‘

صحافیوں کے حقوق کے تحفّظ کے لئے سرگرم عمل تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس IFJ کی ویب سائٹ پر سب سے پہلے ہماری نظر اس جملے پر پڑتی ہے:’’اگر صحافی بدعنوانی اور غربت کے حالات اور خوف کے سائے میں ہوں، تو پریس کی آزادی ممکن نہیں۔‘‘

عراق، افغانستان، پاکستان، سری لنکا، کشمیر، سوڈان اور صومالیہ جیسے بحران زدہ خطّوں میں صحافیوں کو بہت ساری مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Verletzter Journalist in Bagdad
سن 2003ء میں امریکی فوجیوں نے بغداد کے ایک ہوٹل پر حملہ کیا جس میں کئی غیر ملکی صحافی زخمی ہوےتصویر: AP

بین الاقوامی تنظیم’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ CPJ کے مطابق اس سال دنیا کے مختلف ملکوں میں اب تک اٹھائیس صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔گزشتہ سال اڑتالیس 48 صحافی اپنی ڈیوٹی کے دوران مارے گئے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق’’لائن آف ڈیوٹی‘‘ میں ہلاک یا زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔

سچائی کا ترجمان:

بحران زدہ خطّوں میں ایک صحافی کے سامنے بہت سارے چیلنجز ہوتے ہیں۔کبھی ریاست اور اس کی سیاست کا دباوٴ تو کبھی غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں کا خوف، لیکن ایک پیشہ ور صحافی ہمیشہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ تلواروں کے سائے میں رہ کر بھی سچائی کی ترجمانی کرے۔

ریاست اور سیاست کا دباوٴ:

سری لنکا میں ابھی حال ہی میں ایک عدالتی فیصلے میں تسے نایاگم نامی ایک مقامی صحافی کو بیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سری لنکا میں اکتیس اگست کو اس نامور صحافی کو یہ سزا سنائی گئی۔ جے ایس تسے نایاگم پر الزام ہے کہ وہ اپنی تحریروں، رپورٹوں اور کالمز میں سری لنکن فوج کی مخالفت اور باغی تامل ٹائیگرز کی حمایت کرتے رہے ہیں۔کولمبو میں ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس صحافی کو ’’فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور مسلح تامل باغیوں سے اپنی ویب سائٹ کے لئے مالی مدد حاصل کرنے‘‘ کا بھی مجرم قرار دیا۔

Journalist Jayaprakash Sittampalam in Sri Lanka zu 20 Jahren Haft verurteilt
ہائے کورٹ کے فیصلے کے بعد جیل حکام تامل صحافی جے پرکاش ستم پالم تسے نایاگم کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے اپنی رپورٹ میں اس سری لنکن صحافی کے خلاف سنائے گئے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی عدالتی فیصلے پر نکتہ چینی کی۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جورسٹس ICJ نے اپنی تازہ رپورٹ میں مقدمے کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگایا۔

ایشین ہیومن رائٹس کمیشن AHRC نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسے سری لنکا کے عدالتی فیصلے پر ’’سخت حیرت‘‘ ہوئی ہے۔ کمیشن کے مطابق صحافی تسے نایاگم کے مقدمے کے پیچھے واضح طور پر ’’سیاست کا عمل دخل ہے۔‘‘

’نارتھ ایسٹرن‘ نامی ایک ماہانہ جریدے کے مدیر جے ایس تسے نایاگم خود کو بے قصور بتاتے ہیں۔ یکم مئی، پریس کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے اس سال اپنے ایک بیان میں سری لنکن صحافی تسے نایاگم کا تذکرہ کیا تھا۔ تاہم سری لنکن حکومت نے اس وقت کہا کہ امریکی صدر کو اس کیس کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔

تامل ٹائیگرز کے خلاف چھبیس سالہ جنگ کے دوران سری لنکن فوج کو حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کے حوالے سے ہمیشہ ہی تنقید کا سامنا رہا ہے۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: افسر اعوان