1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائر: جرمن دوا ساز ادارے کے 150 برس

کلاؤس اُلرِش / اے اے1 اگست 2013

یکم اگست 1863ء کو قائم ہونے والا جرمن دوا ساز ادارہ Bayer، جس کی تیار کردہ مصنوعات میں سے اسپرین کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے، اپنی 150 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ایک رنگ ساز چھوٹی سی فیکٹری ایک عالمی ادارہ کیسے بنی؟

https://p.dw.com/p/19I9Y
تصویر: picture-alliance/dpa

حال ہی میں جب بائر کے قیام کے 150 سالہ جشن کی تقریب منعقد ہوئی تو اُس میں شریک مہمانوں میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی شامل تھیں، جنہوں نے انتہائی شاندار الفاظ میں اس بین الاقوامی ادارے کو خراج تحسین پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ادارہ ’جرمنی کی اختراعی صلاحیتوں اور اعلیٰ تکنیکی معیارات کی پہچان ہے‘۔

ادارے کے سربراہ مارائین ڈیکرز نے اس موقع پر اپنے خطاب میں مستقبل کے امکانات پر بات کی اور کہا کہ بھوک اور بیماریوں پر قابو پانے کی جدوجہد کو بائر کے ہاں ترجیحی اہمیت حاصل رہے گی:’’یہی چیز ہر روز ہمارے ہاں کام کرنے والے ایک لاکھ دَس ہزار مرد و زن کو نئے سرے سے مہمیز کرتی ہے۔‘‘

فریڈرِش بائر
فریڈرِش بائرتصویر: Bayer AG

بارمن میں آغاز

یکم اگست 1863ء کو فریڈرش بائر اور رنگ ساز یوہان ویسکوٹ نے جرمن شہر وُوپرٹال کے مشرقی حصے بارمن میں رنگ تیار کرنے والی ایک چھوٹی سی فیکٹری کی بنیاد رکھی۔ یہ کاروبار چل پڑا ۔ اس کے اہم ترین گاہکوں میں فوج شامل تھی، جو بائر کی مصنوعات کی مدد سے اپنی وردیاں رنگتی تھی۔

تازہ سرمایہ حاصل کرنے کے لیے 1883ء میں اس کمپنی کو حصص والی کمپنی کی شکل دے دی گئی۔ نئے نئے رنگوں کی تیاری کے شعبے میں سخت مقابلہ بازی تھی، اس لیے اس ادارے نے یونیورسٹیوں سے تازہ تازہ فارغ التحصیل اُن طلبہ کو ملازمت دینا شروع کی، جنہوں نے نئے نئے متعارف کروائے گئے مضمون کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی۔

کیمیا دان اور نت نئی مصنوعات کی رجسٹریشن

معاشی شعبے کے مؤرخ اور بائر سے متعلقہ امور کے ماہر ویرنر پلمپے فرینکفرٹ اَم مائن یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے کچھ ہی عرصے بعد متعارف کروائے جانے والے ’مصنوعات کی رجسٹریشن کے قانون‘ سے کیمیا دانوں کی پوزیشن اور مستحکم ہو گئی‘۔ تب بھی کسی ایسے ہی پراڈکٹ کو رجسٹر کیا جاتا تھا، جس کے بارے میں یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ واقعی نیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اچھے اور ماہر کیمیا دانوں کی ضرورت تھی۔

1863ء میں قائم ہونے والی بائر کمپنی کی سب سے پرانی معلوم تصویر میں کارکن فیکٹری میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں
1863ء میں قائم ہونے والی بائر کمپنی کی سب سے پرانی معلوم تصویر میں کارکن فیکٹری میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیںتصویر: Bayer AG

اس ادارے کی مصنوعات کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ مصنوعی رنگوں کے ساتھ ساتھ جلد ہی ادویات بھی تیار کی جانے لگیں۔ رنگوں کی تیاری کے دوران ایسے فاضل مادے بھی وجود میں آتے تھے، جن کا کوئی استعمال نہیں تھا۔ کیمیا دانوں نے ان مادوں پر تجربات شروع کر دیے۔ اس دوران محض اتفاقیہ طور پر یہ پتہ چلاکہ چند ایک فاضل مادوں کو بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جا سکتا تھا یا کم از کم تکلیف میں کمی لائی جا سکتی تھی۔

اسپرین اور لیورکُوزن

اسپرین بھی، جسے چھ مارچ 1899ء کو پیٹنٹ کروایا گیا تھا، یونہی اتفاقیہ طور پر دریافت ہوئی تھی۔ 1895ء میں بائر نے رنگ تیار کرنے والا ایک چھوٹا سا ادارہ ’کارل لیورکُوز اینڈ سنز‘ خرید لیا جبکہ 1912ء میں حتمی طور پر لیورکُوزن میں بائر کمپنی کا ہیڈ کوارٹر قائم ہو گیا۔ پہلی عالمی جنگ سے قبل ہی بائر نے بہت سے یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ برازیل، ارجنٹائن، چین، جاپان اور امریکا میں بھی اپنے ذیلی ادارے قائم کر لیے تھے اور اس کے کارکنوں کی تعداد دَس ہزار سے تجاوُز کر گئی تھی۔

1899ء میں پیٹنٹ کروائی جانے والی دوا اسپرین آج بھی اس دوا ساز ادارے کی سب سے بڑی پہچان ہے
1899ء میں پیٹنٹ کروائی جانے والی دوا اسپرین آج بھی اس دوا ساز ادارے کی سب سے بڑی پہچان ہےتصویر: Bayer AG

پہلی عالمی جنگ کے چند سال بعد بائر کی انفرادی حیثیت ختم کر دی گئی اور 1925ء میں اسے اور چند ایک اور جرمن کیمیائی اداروں کو IG Farben نامی کمپنی کی شکل دے گئی۔ 1933ء میں اڈولف ہٹلر کی قیادت میں نازی سوشلسٹ حکومت برسرِاقتدار آئی تو اس نئی کمپنی سے وہ زہریلی گیس تیار کروانے کا کام بھی لیا گیا، جس کی مدد سے کئی ملین انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

1944ء کے اواخر میں صرف لیورکُوزن کے کارخانے میں چار ہزار سے زیادہ افراد سے بیگار لی جا رہی تھی۔ ویرنر پلمپے کے مطابق تب کمپنی کے کسی سرکردہ عہدیدار نے اخلاقی جرأت نہیں دکھائی اور یہ نہیں کہا کہ یہ غلط کام ہے، ہم نہیں کر سکتے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد IG Farben کو تحلیل کر دیا گیا اور سرکردہ عہدیداروں پر نیورمبرگ میں مقدمات چلائے گئے۔

عالمی ادارہ اور اُس کے تین ستون

1951ء میں بائر کی بنیاد نئے سرے سے ڈالی گئی اور کامیابی کا سفر پھر سے شروع ہو گیا۔ 1994ء میں امریکا میں بھی فرم کا نام واپس خرید لیا گیا، جس سے یہ فرم پہلی عالمی جنگ کے بعد محروم ہو گئی تھی۔

ادویات سازی آج اس ادارے کا سب سے بڑا ستون ہے۔ ادارے کو اپنی تقریباً پچاس فیصد آمدنی اسی شعبے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ کیڑے مار ادویات کی تیاری اور بیجوں کی پیداوار کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس ادارے کا تیسرا ستون انتہائی اعلیٰ معیار کے ایسے مصنوعی مادوں کی تیاری ہے، جو کاروں، الیکٹرانک آلات اور تعمیراتی صنعت میں استعمال ہوتے ہیں۔ اپنے ایک لاکھ دَس ہزار کارکنوں اور سالانہ تقریباً چالیس ارب یورو کےکاروبار کے ساتھ Bayer AG آج جرمنی کے ادویات اور کیمیائی مادے تیار کرنے والے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔