1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک نابینا، ایک کے ہاتھ نہیں، 12ہزار درخت لگا دیے

افسر اعوان1 مئی 2015

چین میں دو معذور دوستوں نے ماحول میں بہتری لانے کے لیے ایک ایسا کام کیا ہے جو بالکل تندرست افراد کے لیے بھی شاید اتنا آسان نہ ہو گا۔ اور یہ کارنامہ 12 ہزار پودے لگانا اور ان کی دیکھ بھال کر کے ان کو تناور درخت بنانا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FIo6
Deutschland Isar Fluss
تصویر: Fotolia

چین کے وسطی علاقے میں دریائے ’یے‘ (Ye) کا کنارا کبھی بالکل بنجر ہوتا تھا مگر اب وہاں 12 ہزار درخت لہلا رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دو ایسے باغبان دوستوں کی وجہ سے ممکن ہوا، جن میں سے ایک بینائی جبکہ دوسرا بازوؤں سے محروم ہے۔

چینی صوبے ہیبائی سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں دوست اپنے گاؤں کے قریب گزشتہ 13 برس سے دیودار کے درخت لگاتے رہے ہیں اور ان کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ ابتدا میں تجارتی مفاد کے لیے شروع کیے جانے والے اس کام کا مقصد وقت کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں آب و ہوا کی صورتحال کو بہتر بنانا بن گیا، جس کے لیے انہیں مقامی حکام کا تعاون بھی حاصل ہو گیا۔

چین جیسے ملک میں، جہاں معذور افراد کے لیے نوکری تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے، یہ کہانی ہے، دونوں بازوؤں سے محروم 53 سالہ جیا وینکی (Jia Wenqi) اور ان کے بینائی سے محروم 54 سالہ دوست جیا ہیکسیا (Jia Haixia) کی، جنہوں نے ماحولیات سے متعلق آگاہی کی ایک بے نظیر مثال قائم کی ہے۔

دریا کے کنارے پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران وینکی کا کہنا تھا، ’’یہ دریا کا کنارا کبھی بالکل خشک تھا اور یہاں ریت اور پتھر تھے۔ یہ کئی سالوں سے بنجر تھا۔ عام لوگوں کے لیے یہاں درخت لگانا ناممکن تھا۔ لیکن کہاوت ہے نا کہ ہمت کے سامنے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔‘‘

ہر صبح جیا ہیکیسیا اپنے دوست جیا وینکی کے بازوؤں کے بغیر کندھوں پر ہاتھ رکھ کر گھر سے نکلتا ہے۔ دونوں دریا تک جاتے ہیں اور پھر نابینا دوست اپنے بازوؤں سے محروم ساتھی کو اپنی کمر پر سوار کر کے دریا کو کم گہرے پانی والے حصے سے عبور کر کے اس حصے تک پہنچتا ہے، جہاں انہوں نے درخت لگائے ہوئے ہیں۔ نابینا درخت پر چڑھ کر اس کی شاخیں کاٹتا ہے تاکہ ان کی تراشوں کو نئے پودوں کے طور پر بویا جا سکے۔

’’ہمارے دل میں یہ ایک بڑا خواب ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک سر سبز خطہ چھوڑ جائیں‘‘
’’ہمارے دل میں یہ ایک بڑا خواب ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک سر سبز خطہ چھوڑ جائیں‘‘تصویر: Rodrigo Buendia/AFP/Getty Images

جیا وینکی اس دوران اپنے رُخسار اور کندھے کے درمیان بیلچا پکڑ کر زمین پر اُس جگہ رکھتے ہیں، جہاں گڑھا کھودنا ہوتا ہے اور اپنے پیروں کی مدد سے اسے زمین میں دبا کر مٹی نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے پیروں کی مدد سے دریا سے ایک بالٹی کی مدد سے پانی لا کر نئے لگائے گئے پودوں کو ڈالتے ہیں۔

بچپن کے ان دوستوں نے ملازمت نہ ملنے کے بعد 2002ء میں اپنا یہ کام شروع کیا تھا اور ابتدا میں انہوں نے سالانہ 800 درخت لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ پہلے برس خشک سالی کے باعث ان کے لگائے گئے تمام پودے سوکھ گئے۔ انہوں نے پھر کبھی اپنے اس کام سے پیسے نہیں بنائے بلکہ انہیں حکومت کی طرف سے معذور افراد کو ملنے والا مشاہرہ ملنا شروع ہو گیا جو کافی معقول ہے۔

تاہم انہوں نے اپنا یہ کام جاری رکھا اور اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک مقصد ہے اور وہ ہے ’مقامی آب و ہوا کو بہتر بنانا‘۔

جسمانی طور پر معذور مگر انتہائی پر عزم ان دوستوں کا ایسوسی ایٹد پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’درخت لگانے کے اس عمل سے شاید موجودہ نسل کو تو بہت زیادہ فائدہ نہ ہو، مگر یہ آنے والی نسل کے لیے ایک سبز ماحول ضرور چھوڑے گا۔‘‘ جیا ہیکسیا کا کہنا تھا، ’’ہم جسمانی طور پر معذوری رکھتے ہیں مگر ذہنی طور پر صحت مند ہیں۔ ہمارے دل میں یہ ایک بڑا خواب ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک سر سبز خطہ چھوڑ جائیں۔‘‘