1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک لاکھ ستر ہزار افراد کے قتل میں مدد، نازی ملزم عدالت میں

مقبول ملک16 فروری 2015

جرمنی کی ایک عدالت کے مطابق نازی دور میں ہٹلر کے ایس ایس دستوں سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے 93 سالہ سابقہ فوجی کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی ہے، جس پر ایک لاکھ ستر ہزار افراد کے قتل میں مجرمانہ مدد کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/1Eccl
آؤشوِٹس کیمپ میں خواتین کی ایک بیرک میں بند قیدی، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/akg-images

جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس سابقہ نازی فوجی پر الزام ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران، جب پولینڈ پر نازی جرمنی کا قبضہ تھا، آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ کے ایک محافظ کے طور پر وہ قریب پونے دو لاکھ انسانوں کے قتل میں معاونت کا مرتکب ہوا تھا۔

Ausländische Juden im Mai 1941 vor ihrer Deportation nach Auschwitz auf dem Bahnsteig von Pithiviers südlich von Paris
مختلف یورپی ملکوں سے یہودی قیدیوں کو اس کیمپ میں پہنچایا جاتا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن شہر ڈَیٹمولڈ میں ایک صوبائی عدالت کی طرف سے پیر سولہ فروری کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اس نازی جنگی ملزم نے، جس کا نام عدالت نے ذاتی کوائف خفیہ رکھے جانے سے متعلق مروجہ جرمن قوانین کی روشنی میں ظاہر نہیں کیا، جنوری 1943ء سے لے کر جون 1944ء تک آوشوِٹس کے بدنام زمانہ اذیتی کیمپ میں گارڈ کے فرائض انجام دیے تھے۔

اس وقت اس نازی ملزم کی عمر 93 سال ہے اور اس پر الزام ہے کہ وہ نہ صرف آؤشوِٹس ون نامی اذیتی کیمپ میں فرائض انجام دیتا رہا ہے بلکہ وہ اسی کیمپ کمپلیکس کے آؤشوِٹس بِرکیناؤ نامی اس حصے میں بھی بطور نگران متعین رہا تھا جہاں زیادہ تر یہودیوں پر مشتمل نئے قیدیوں کو لایا جاتا تھا۔

Jüdische Frauen und Männer warten auf Abtransport
1944ء میں ہنگری سے آؤشوِٹس پہنچائی جانے والی یہودی خواتین اور ان کے بچوں پر مشتمل ایک گروپ، فائل فوٹوتصویر: picture alliance / AP Photo

نازی جرمن دور کے مقبوضہ پولینڈ میں آؤشوِٹس ون اور آؤشوِٹس بِرکیناؤ اس اذیتی کیمپ کے وسیع تر کمپلیکس کا حصہ تھے، جہاں چند ہی برسوں میں مجموعی طور پر قریب گیارہ لاکھ انسانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر مختلف یورپی ملکوں سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے۔

ملزم کے وکیل صفائی یوہانَیس سالمن کے مطابق اس کا مؤکل یہ اعتراف تو کرتا ہے کہ وہ نازی دور میں ہٹلر کے SS دستوں کے ایک رکن کے طور پر آؤشوِٹس ون نامی کیمپ میں متعین رہا تھا تاہم وہ اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ نازی گارڈ کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے عرصے میں آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے کیمپ میں بھی تعینات رہا تھا یا اس نے وہاں لاکھوں انسانوں کے قتل میں کسی بھی طرح حصہ لیا تھا۔

ملزم اپنے خلاف نسل کشی سے متعلق الزامات کی بھی تردید کرتا ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ڈَیٹمولڈ کی ایک صوبائی عدالت میں استغاثہ کی طرف سے ملزم کے خلاف جو دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں، ان کے مطابق محض قریب 18 ماہ کے عرصے میں ملزم ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد قیدیوں کے قتل میں معاونت کا مرتکب ہوا تھا۔

Konzentrationslager Auschwitz
آؤشوِٹس کیمپ کا صدر دروازہ اور اس پر لکھا گیا بدنام زمانہ پیغام: ’کام آزادی دلاتا ہے‘تصویر: picture-alliance/dpa

عدالتی دستاویزات کے مطابق ملزم پر فرد جرم گزشتہ ہفتے ہی عائد کر دی گئی تھی لیکن اس بارے میں میڈیا کو آج سولہ فروری کو آگاہ کیا گیا۔

استغاثہ کے مطابق آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ میں یہ ملزم مبینہ طور پر نہ صرف قیدیوں کی نگرانی پر مامور تھا بلکہ اس کا ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ قیدیوں میں سے ایسے افراد کا انتخاب کرے، جنہیں بعد ازاں ’گیس چیمبرز‘ میں بھجوایا جاتا تھا۔

ڈی پی اے کے مطابق استغاثہ نے فرد جرم عائد کیے جانے کے وقت عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ملزم کس حد تک قصور وار ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اس سلسلے میں پوری طرح باخبر تھا کہ آؤشوِٹس میں یہودیوں اور دیگر قیدیوں کے قتل عام کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید