1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک زندگی سے بھرپور زندگی ختم

بینش جاوید5 جولائی 2016

23 سالہ عادل فراج بغداد شہر کے علاقےالکرادہ میں عید الفطر کے لیے خریداری کر رہے تھے جب ایک خوفناک خود کش دھماکے نے اس کی زندگی ختم کر دی۔

https://p.dw.com/p/1JJSO
Irak Bombanschlag Opfer Adil Faraj
عادل فراج نے حال ہی میں وکالت کی تعلیم مکمل کی تھی اور وہ رقص کے انتہائی شوقین تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. McNeil

شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے ایک خودکش بمبار نے اتوار کے روز دن گیارہ بجے ایک پر ہجوم گلی میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس بازار میں ہزاروں کی تعداد میں افراد عید الفطر کے لیے خریداری کر رہے تھے یا پھر افطار کے بعد اور سحری سے قبل اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزار رہے تھے۔ منگل تک اس بازار میں ہونے والے خود کش حملے کی ہلاکتوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے۔ عراق میں گزشتہ ایک دہائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکت خیز ‌حملہ تھا۔

Irak Bombanschlag Opfer Adil Faraj
فراج نے عراق کی قدامت پسند ثقافت کو ترک کرتے ہوئے یوٹیوب اورسکائپ کے ذریعے رقص سیکھا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. McNeil

عادل فراج نے حال ہی میں وکالت کی تعلیم مکمل کی تھی اور وہ رقص کے انتہائی شوقین تھے۔ انہوں نے گزشتہ برس اردن میں پہلی مرتبہ اسٹیج پر رقص کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔ فراج کے 18 سالہ چھوٹے بھائی بلال بیلجیم میں ایک مہاجر کے طور پر رہائش پذیر ہے۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا،’’ اس حملے میں فراج کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔‘‘ فراج کو پیر کے روز عراقی شہر نجف میں دفنا دیا گیا۔ بلال کا کہنا ہے کہ جنازے میں اس کے والد بہت افسردہ تھے اور وہ اب تک اپنی والدہ سے فون پر بات نہیں کر سکا کیوں کہ ان کی سسکیاں نہیں تھمتی۔

فراج نے عراق کی قدامت پسند ثقافت کو ترک کرتے ہوئے یوٹیوب اورسکائپ کے ذریعے رقص سیکھا تھا۔ فراج مائیکل جیکسن کے بڑے مداح بھی تھے۔ وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں ڈانس کی پریکٹس کرتے تھے۔ بلال کے ہنر کی بدولت انہیں ایک کمپنی نے اردن میں رقص کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا۔

Irak Bagdad Anschlag in Karrada
منگل تک اس بازار میں ہونے والے خود کش حملے کی ہلاکتوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہےتصویر: Reuters/Khalid al Mousily

فراج عراق میں عدم استحکام اور قدامت پسندی کے باعث محفوظ محسوس نہیں کرتے تھے لیکن تعلیم مکمل کرنے کے لیے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسی شہر میں رہ رہے تھے۔ بلال نے اے پی کو بتایا کہ اس برس ان کی منگنی ہو گئی تھی اور فراج اپنی منگیتر کے ساتھ امریکا جا کر بطور رقاص ایک نئی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ فراج کی ڈانس کمپنی کے ڈائریکٹر جوناتھن ہالینڈر نے اے پی کو بتایا،’’ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں وہ ایک جنگ لڑ رہا تھا۔‘‘ اردن میں ڈانس فیسٹیول کے ڈائریکٹر رانیہ کم ہاوائی کا کہنا ہے،’’ فراج اڑنا چاہتا تھا، وہ زندگی کو جینا چاہتا تھا۔‘‘