1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک بار جہاد اور پھر وطن واپسی

کرسٹن کِنپ/ کشور مصطفیٰ22 اکتوبر 2013

ایک جہادی کے نقطہء نظر سے عرب ملک شام جانے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ وہاں جاکر خود کو "مقدس جنگ" لڑنے والے یہ عسکریت پسند ایک سیکولر سربراہ مملکت کے خلاف نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1A4CL
تصویر: Zac Baillie/AFP/Getty Images

ایک جہادی کے نقطہء نظر سے عرب ملک شام جانے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ وہاں جاکر خود کو "مقدس جنگ" لڑنے والے یہ عسکریت پسند ایک سیکولر سربراہ مملکت کے خلاف نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ یہ جنگجو شام میں جاری سنی شیعہ فرقہ ورانہ فسادات میں حصہ لے سکتے ہیں، ایک ایسی جنگ جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس جنگ میں جیتنے والا گروپ ہی آخر کار مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کر لے گا۔ یہ منظر نامہ خانہ جنگی سے تباہ حال ملک شام کے کھنڈرات پر ایک ’اسلامی مملکت‘ کے قیام کے تصور کو تقویت دیتا ہے۔

شام میں "جرمن کیمپ"

ان اہداف کے پیش نظر شام کی سرزمین پر اس وقت بہت سے غیر ملکی سنی انتہا پسند جنگ میں شریک ہیں۔ ایک برطانوی تحقیقی ادارے "جینز" کی طرف سے شائع کردہ ایک تازہ ترین مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں اس وقت 10 ہزار جہادی ایسے ہیں جو القاعدہ کے ’عالمی جہاد‘ کے تصور سے متاثر ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق شام میں دیگر 30 سے 35 ہزار اسلام پسند خود کی ملک میں جاری اقتدار کی جنگ تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں اور ان کی جنگ کا واحد مقصد اسد حکومت کا خاتمہ ہے۔ جرمنی کے معروف جریدے ’ ڈیر اشپیگل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی کے آئینی تحفظ کے ادارے کا اندازہ ہے کہ شام میں اس وقت سرگرم جہادیوں میں سے قریب 200 کا تعلق جرمنی سے ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ کا تعلق جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے گئے ہیں۔ اس کے بعد جرمن صوبے حسے، دارالحکومت برلن، صوبے بویریا اور سٹی اسٹیٹ ہیمبرگ سے ہیں۔ ان 200 جہادیوں میں سے نصف سے زائد کے پاس جرمن شہریت ہے۔ ان میں سے زیادہ تر "جرمن کیمپ " کہلانے والے کیمپ میں رہ رہے ہیں۔

Deutschland Terrorismus Islamisten
نائن الیون کے بعد سے جرمنی میں مبینہ جہادیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی کے رضاکاروں کا کردار

شام کی خانہ جنگی میں جرمنی سے رضا کارانہ طور پر گئے ہوئے ان جہادیوں کے حقیقی کردار کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایک جرمن ماہر سیاسیات اور آخن یونیورسٹی سے منسلک الیگزانڈر ہامن کا تاہم کہنا ہے کہ ایک واضح امر یہ ہے کہ جرمن جہادی شام کے میدان جنگ میں موجود ہیں، ایک ایسے میدان میں، جہاں نہایت تجربہ کار اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک جنگجو سرگرم ہیں۔

شام میں لڑنے والے زیادہ تر جہادی بوسنیا، افغانستان یا عراق میں لڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے تجربات جرمن جہادیوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں اور ان کی مہارت بھی کہیں زیادہ ہے۔ تربیت اور تجربے کی کمی کی وجہ سے جرمن جہادی دوبدو لڑائی میں کسی کام کے نہیں ہیں۔

Moschee, Schaubild Dschihad mit Soldat
جرمنی کی چند مسلم تنظیموں اور برادری کی مذہبی سرگرمیاں مشکوک ہونے کے سبب چند مساجد بند کروا دی گئی ہیںتصویر: DW

بغیر پاسپورٹ، بغیر پیسوں کے

جرمن ماہر سیاسیات الیکگزانڈر ہامن کہتے ہیں، ’یہ اب تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ان جہادیوں نے شام میں کیا سیکھا ہے۔ شام میں انہوں نے کون سی صلاحیتوں کو بہتر بنایا۔ یہ تمام سوالات اُسی طرح ہنوز جواب طلب ہیں جس طرح یہ سوال کہ آیا جرمنی سے تعلق رکھنےوالے جہادیوں کے اندر شام کی جنگ لڑنے کی صحیح معنوں میں رغبت پائی جاتی ہے یا نہیں" ۔ تحفظ آئین کے وفاقی جرمن ادارے کے مطابق شام اور دیگر ممالک میں سرگرم رہنے کے بعد بہت سے جہادی فوری طور سے واپس جرمنی آنا چاہتے ہیں اس لیے کہ ان بحران زدہ ممالک میں نہ تو ان جہادیوں کے پاس مطلوبہ اجازت نامہ ہوتا ہے اور نہ ہی پیسے۔ ان کے لیے آخری رستہ اپنے سفارتخانے سے رجوع کرنا ہی رہ جاتا ہے۔