ایک اور امریکی شہری چین کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار
5 جون 2018امریکی محکمہ انصاف نے بتایا کہ ریاست یُوٹاہ کے رہائشی اٹھاون سالہ رون روکول ہینسن کو گزشتہ ہفتے کے روز اس وقت حراست میں لیا گیا، جب وہ سیاٹل کے ہوائی اڈے سے چین کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔ ایک بیان میں بتایا گیا کہ ان کے پاس سے کچھ خفیہ مواد بھی برآمد ہوا تھا۔
ہینسن کے خلاف جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ انہیں امریکی عسکری معلومات اور ٹیکنالوجی کی تفصیلات چین کو فراہم کرنے کے لیے آٹھ لاکھ ڈالر ادا کیے گئے تھے۔
ہینسن کے بارے بتایا گیا ہے کہ وہ امریکی فوج کے سگنلز انٹیلیجنس کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ چینی اور روسی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ انہیں 2006ء میں ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی (ڈی آئی اے) میں بیرون ملک خفیہ اثاثوں کے منتظم کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ وہ بیجنگ کے دفتر میں تعینات کیے گئے تھے اور اس دوران ہی ہینسن کے چینی خفیہ ادارے سے رابطے ہوئے تھے۔
تفتیش کاروں کے مطابق ہینسن چینی خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے تھے اور انہوں نے ان ملاقاتوں کا کبھی تذکرہ بھی نہیں کیا تھا۔ وہ چینی اہلکاروں کی جانب سے فراہم کیا گیا ایک موبائل فون استعمال کرتے تھے اور ایسی معلومات جمع کرنے کی کوشش کرتے تھے، جن تک ان کی رسائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہینسن 2013ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں شدید مالی مسائل کا شکار بھی رہے تھے۔ تاہم اس عرصے کے دوران اور بعد میں انہیں چین سے آٹھ لاکھ ڈالر موصول ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کے قبضے سے کئی مرتبہ نقد رقوم بھی برآمد ہوئیں، جن کے بارے میں وہ کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے تھے۔
اسی سال جنوری میں سی آئی اے کے سابق جاسوس جیری چن شنگ لی کو بھی چین کو امریکی راز فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی وزارت خارجہ کے اہلکار کیون میلوری کو بھی گزشتہ برس ایسے ہی الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا۔