1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایک اذیت ناک عید ہے‘

دانش بابر، پشاور17 جولائی 2015

آنکھوں میں آنسوں لیے، گزشتہ سال 16 دسمبر کو پیش آنے والے افسوس ناک سانحے میں اپنا اکلوتا بیٹا کھونے والی ثمینہ بی بی کہتی ہیں کہ ان کی زندگی میں کئی عیدیں آئیں، لیکن یہ ان کے لیے ایک ناقابل فراموش عید ہے۔

https://p.dw.com/p/1G0ND
تصویر: DW/D. Baber

گزشتہ سال خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر شدت پسندوں کے حملے میں قریب 150 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں زیادہ تر تعداد کم سن طالب علموں کی تھی۔ اس سانحے کے فوراﹰ بعد ملک میں نا صرف شدت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں شروع ہوئیں بلکہ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کے لواحقین کو اس رنج اور صدمے سے نکالنے کے لیے ان کو عمرے کی سعادت کے لیے سعودی عرب بھیجا گیا، لیکن ثمینہ بی بی کہتی ہیں کہ جس بے دردی کے ساتھ ان کے معصوم بچے کو شہید کیا گیا وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتیں۔ ہرگھڑی ان کو اپنا بیٹا یاد آتا ہے، ’’پچھلے سال عید کی خریداری کے لیے میں اور میرا اکلوتا بیٹا محمد ذیشان، ایک ساتھ گئے تھے لیکن اس سال وہ نہیں ہے، مجھے ہمت نہیں ہو رہی کہ میں اس کے بغیر بازار جاؤں۔‘‘

Pakistan Peshawar Familien nach dem Terroranschlag
تصویر: DW/D. Baber

ثمینہ رمضان میں ہر سحری ذیشان کے کمرے تک گئیں تاکہ اس کو جگائیں، کیونکہ ذیشان ہمیشہ سب سے آخر میں اٹھا کرتا تھا، لیکن اس سال اس کا بستر خالی تھا۔ ذیشان کی والدہ کہتی ہیں کہ جیتے جی اس کو بھول جانا ممکن نہیں ہے۔
آرمی پبلک سکول حملے میں جاں بحق ہونے والے دسویں جماعت کے طالب علم زین اقبال کے والد محمد اقبال کے بقول تمام روزوں میں ان کے بیٹے کی یادوں نے ان کو ستایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح یہ عید بھی اپنے بڑے بیٹے زین کے ساتھ ہی گزار رہے ہیں، لیکن اس سال فرق صرف اتنا ہے کہ ان کا بیٹا کی گھرکی جگہ قبرستان میں منوں مٹی کے نیچے سو رہا ہے۔ انتہائی افسردہ محمد اقبال کہتے، ’’زین کو میٹھا بہت پسند تھا۔ اس عید پر بھی اس کی پسندیدہ ڈش بن رہی ہے۔ لیکن اس دفعہ زین ہمارے ساتھ بیٹھ کر نہیں کھا رہا، یہ ایک اذیت ناک عید ہے۔‘‘
وقاص احمد جن کے دو بھائی 14 سالہ اویس احمد اور 16 سالہ ذیشان احمد آرمی پبلک سکول کے سانحہ میں جان بحق ہوئے، کہتے ہیں، ’’ویسے تو ہر لمحہ ان کی یاد آتی ہے، جب بھی دروازے پر دستک ہوتی ہے، تو میں دروازے کی طرف بھاگتا ہوں، جیسے دروازے پر میرے دونوں بھائی ہیں۔‘‘ وقاص کے بقول یہ ان کہ زندگی کی واحد عید ہے، جس میں وہ عید کے نماز کے بعد اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں سے گلے نہیں مل سکا، ’’عید پر ان کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ پچھلے سال میں نے اویس اور ذیشان کو سو سو روپے کی عیدی دی تھی۔ جس پر دونوں بہت خوش تھے۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ اپنے علاقے میں دو گورنمنٹ اسکولوں کے نام دیکھ کر، جنہیں ن کے شہید بھائیوں کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے، ان کو بہت خوشی ہوتی ہے۔

وقاص کی دس سالہ چھوٹی بہن نمرہ احمد کہتی ہے کہ ذیشان کے ساتھ اس کی گہری دوستی تھی عید پر دونوں ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے، لیکن اس عید پر اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے کوئی نہیں ہے۔
اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے ایک اور طالب علم احمد علی شاہ کی والدہ کہتی ہیں کہ رمضان میں انہوں نے بہت تکلیف کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی ہے، کیونکہ جب بھی وہ قرآن آٹھاتیں تو ان کو اپنے بڑے بیٹے احمد کی یاد ستاتی: ’’احمد قرآن پاک کے تلاوت میں بہت اچھا اور تیز تھا، پچھلے رمضان میں وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا تھا کہ کون پہلے قرآن ختم کرے گا، وہ ہمیشہ جیت جاتا تھا۔‘‘
احمد کو وہ بریانی بہت پسند تھی اس لیے عید کے دن احمد کی والدہ اس کے لیے خصوصی طور پر بریانی بنایا کرتی تھیں۔ باپ کی کمی محسوس نہ ہو اس لیے احمد کی والدہ اس کی اور اس کے چھوٹے بھائی محمد کی ہر خواہش وقت سے پہلے پورا کرتی تھیں۔
احمد کا چھوٹا بھائی محمد علی شاہ جو کہ آرمی پبلک سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم ہے، کہتا ہے، ’’بھائی کے شہید ہوجانے کے بعد میں بالکل اکیلا ہوگیا ہوں۔ ہم عید کے لیے ایک جیسے کپڑے خریدتے تھے، اب میں کس کی طرح کپڑے بناؤں؟ کس کے ساتھ لڑائی کروں کہ میرے کپڑے زیادہ پیارے ہیں۔‘‘

Pakistan Peshawar Familien nach dem Terroranschlag
تصویر: DW/D. Baber

محمد کہتا ہے کہ حکومت نے اپریل میں ان کی فیملی ساتھ عمرے کے لیے بھیجا تھا، وہاں پر اس نے اپنے بھائی کے لیے بہت ساری دعائیں کیں۔