1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

این جی اوز پر پابندی،اب مدد کیسے ہو گی؟

فرید اللہ خان، پشاور10 اگست 2015

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بعض بین الااقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے حکومت نے این جی اوز کے خلاف مرحلہ وار اقدامات اٹھائے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GClr
تصویر: Farid Ullah Khan

رپورٹس کے مطابق پہلے اسلام آباد حکومت کی جانب سے ان غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا، پھر قبائلی علاقوں میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی اور پھر تمام ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کو کام سے روک دیا گیا۔ خیبر پختونخوا میں اّسی کے دہائی میں غیر ملکی این جی اوز کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوا تھا، جب پانچ ملین سے زیادہ افغان شہری مہاجرین کی صورت میں پاکستان پہنچے تھے، جس کے ساتھ ہی مغربی ممالک اور عرب دنیا سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی ایک بڑی تعداد نے ان مہاجرین کی فلاح و بہبود کے کاموں کا آغاز کیا تھا۔

2005ء کے زلزلے،2010ء کے سیلاب اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران خٰیبر پختونخوا میں ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کی تعداد دس ہزار سے بڑھ گئی تھی۔ ان میں کئی فلاح و بہبود اور بحالی میں اپنا موثرکردار ادا کررہی تھیں۔

Peshawar Flut Opfer Versorgung
تصویر: Farid Ullah Khan

تاہم سولہ دسمبر کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد سامنے آنے والے نیشنل ایکشن پلان کی زد میں یہ تنظیمیں بھی آ گئیں۔ وفاقی حکومت کی اس پابندی کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں این جی اوز کی جانب سے شروع کیے جانے والے تین ارب روپے سے زیادہ کے ترقیاتی منصوبوں پر کام رُک گیا ہے۔ اس طرح جہاں ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں وہیں ہزاروں خاندان امداد سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔

حالیہ سیلاب سے متاثرہ ضلع چترال کے امیر نواز سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’گزشتہ سال سیلاب آیا تھا اور اُس وقت حکومتی اداروں کے مقابلے میں این جی اوز نے لوگوں کی زیادہ مدد کی تھی۔ آج صرف حکومتی ادارے امداد اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں تو امداد بھی سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر دی ہی جاتی ہے جبکہ کئی علاقوں تک سرکاری اہلکاروں کو پہنچنے میں مشکلات بھی ہیں۔‘‘

دریں اثنا ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا اسمبلی کے رُکن جعفر شاہ کا اس سلسلے میں کہنا تھا ’’ان غیر سرکاری تنظیموں کی وساطت سے صوبے اور خصوصاً ملاکنڈ ڈویژن میں اربوں روپے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان غیر سرکاری تنظیموں کے لیے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ درست کام کررہے ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر اجازت دی جائے تاکہ عام شہری متاثر نہ ہوں۔

صوبائی حکومت ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کے لیے ابھی تک کوئی مؤثر قانون سازی نہیں کر سکی ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ براہ راست غیر ملکی ڈونرز سے رابطہ کر کے اپنی مرضی کے منصوبوں پر کام شروع کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے سماجی بہبود ڈاکٹر مہر تاج روغانی کا اس سلسلے میں کہنا ہے ’’جب ہم نے حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبے میں چار ہزار این جی اوز کا م کر رہی تھیں بعض کی کارکردگی بہتر تھی لیکن بیشتر غیر فعال تھیں۔ ہم نے جانچ پڑتال کے دوران ان میں سےکئی کو بلیک لسٹ کیا ہے۔‘‘

دوسری جانب پختونخوا میں قیام پذیر افغان مہاجرین کا کہنا کہ امداد کا واحد ذریعہ بھی بند ہو گیا ہے۔ افغان صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے حاجی زمان کے بقول ’’شروع میں کئی امداد ی ادارے تعاون کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ان میں کمی آ گئی ہے۔ پاکستانی ادارے تو اب بالکل بھی امداد نہیں دیتے اور اب مہاجرین کی مدد کرنے والے غیر ملکی غیر سرکاری اداروں پر بھی پابندی لگ گئی ہے،جو ہمارے جیسے لوگوں کے مسائل میں اضافے کا سبب بنے گا۔‘‘