1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا کپ میں شریک بنڈس لیگا کے کھلاڑی

21 جنوری 2011

قطر میں جاری فٹ بال چیمپیئن شپ ایشیا کپ 2011ء میں ’کلب بمقابلہ ملک‘ کا موضوع بھی زیربحث ہے۔ جرمن قومی فٹ بال چیمپیئن شپ بنڈس لیگا کے آٹھ کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں کھیل رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/100JR
ایرانی کھلاڑی خسرو حیدری اور شمالی کوریا کے یونگ ٹائے سےتصویر: AP

اِن آٹھ کھلاڑیوں میں پانچ جاپانی جبکہ ایک ایک جنوبی کوریا، شمالی کوریا اور چین سے ہے۔ تاہم اس بات پر حیرت ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس وقت جرمن لیگ میں آسٹریلیا یا ایران سے کوئی کھلاڑی شامل نہیں ہے۔

دوحہ میں موجود اِن کھلاڑیوں سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اپنی قومی ٹیموں میں شامل ہونے کے باوجود وہ اپنے کلبوں سے وابستگی کو اپنی شناخت سمجھتے ہیں۔ جاپان کی ٹیم کے کپتان ماکوتو ہاسیبے نے کلب فٹ بال 2009ء میں بنڈس لیگا میں کھیلی تھی۔ اس وقت وہ وولفس برگ کی ٹیم میں شامل تھے۔ اس کلب کے لیے اس وقت سال کی پہلی ششماہی بہت بری رہی تھی۔

ہاسیبے کہتے ہیں، ’ابھی ویک اینڈ پر میں نے بائرن میونخ کے خلاف میچ دیکھا ہے۔ اب ہماری ٹیم پھر سے بہتر ہو چکی ہے۔ انہوں نے ایک ٹیم کے طور پر کوشش کی اور یہی بات اہم ہے۔‘

دوسری جانب شمالی کوریا کے سٹرائیکر یونگ ٹائے سے ایشیا کپ میں جب ایران کے خلاف میچ کھیل رہے تھے تو بنڈس لیگا ٹو میں ان کی ٹیم بوخم میونخ کے خلاف میچ کھیل رہی تھی۔ بوخم نے یہ میچ ایک کے مقابلے میں تین گول سے جیتا۔ ٹائے سے کو جب بوخم کی جیت کا پتہ چلا، تو انہوں نے کہا، ’یہ جان کر خوشی ہوئی۔‘ وہ میچ کی مزید تفصیلات جاننے کے لیے بھی بے تاب دکھائی دیے۔

جنوبی کوریا کے جواں سال کھلاڑی ہیونگ مِن سون کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔ وہ بنڈس لیگا کی ٹیم ہیمبرگ میں شامل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’بنڈس لیگا کے نئے سیزن میں میرے کلب نے شالکے پر ایک صفر سے فتح حاصل کی ہے۔ میں یہ مقابلہ دیکھ نہیں سکا، اس لیے میں نے اس کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کی ہیں۔ پہلے مجھے ایشیا کپ پر توجہ دینی ہو گی۔ اگر ہم یہاں جیت گئے، تب ہی میں ایک مرتبہ پھر بنڈس لیگا کے بارے میں سوچ سکوں گا۔‘

رپورٹ: اروناوا چودھری/ندیم گِل

ادارت: عاطف بلوچ