1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایردوآن پر نظم تضحیک آمیز لیکن آزادیٴ رائے پھر بھی مقدم‘

Susanne Spröer / امجد علی12 اپریل 2016

جرمن چینل ZDF پر نشر کردہ ژان بوہمر مان کی ترک صدر رجب طیب ایردوآن پر نظم بد ذوقی کا شاہکار اور بہت تضحیک آمیز بھی ہے لیکن اسے بطور ایک طنزیہ تخلیق کے ہی دیکھا جانا چاہیے، ڈی ڈبلیو کی سُوزانے شپروئر کا لکھا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1ITjk
Screenshot Jan Böhmermann in ZDF Neo Magazin Royale rezitiert Gedicht über Erdogan
جرمن طنز نگار ژان بوہمر مان ٹی وی چینل زیڈ ڈی ایف کے پروگرام ’نیو رویال‘ میں ترک صدر ایردوآن پر نظم پڑھ کر سنا رہے ہیںتصویر: ZDF Neo Magazin Royale

یہ نظم کسی ادبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی بلکہ طنز و مزاح پر مبنی ایک ٹی وی پروگرام میں نشر کی گئی ہے۔ ایسے کسی پروگرام میں پہلے سے ہی یہ توقع کی جاتی ہے کہ بات کو بڑھا چڑھا کر، مبالغہ آمیز انداز میں اور مخصوص حدود کو پار کر کے پیش کیا جائے گا۔ یہی چیز طنز کا خاصہ ہوتی ہے اور اُسے ایک عام لطیفے سے ممتاز کرتی ہے۔ طنزیہ تخلیقات ایسے فنی شاہکاروں کو کہتے ہیں، جن میں مذاق اڑا کر، طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر اور مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے افراد یا حالات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور اختلاف اور تضاد کو ابھارا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ بھی ایک عام سی بات ہے کہ کبھی کبھی ہنسی انسان کے گلے ہی میں اٹک جاتی ہے۔ مجھے بہرحال یہ پروگرام دیکھ کر ہنسی ہی آئی تھی۔ مجھے البتہ اس نظم پر ہنسی نہیں آئی تھی کیونکہ اُسے میں ویسے بھی بد ذوقی کا ہی ایک شاہکار سمجھتی ہوں۔ مجھے وہ سارا پروگرام اور اُس کے وہ خاکے اچھے لگے تھے، جو ایک سماجی بحث مباحثے کے آغاز کا باعث بنے ہیں۔

Deutsche Welle Kultur Susanne Spröer
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار سُوزانے شپروئرتصویر: DW

قابلِ تعزیر طنزیہ تنقید: اب جو آپ دیکھیں گے، وہ ممنوع ہے

اس پروگرام کا آغاز ہی بہت ہوشیاری کے ساتھ کیا گیا۔ ژان بوہمر مان نے اس نظم کی تمہید ایک انتباہ سے باندھی اور کہا کہ ابھی کچھ دیر میں جیسا کچھ آپ دیکھنے والے ہیں، ایسا عموماً کیا نہیں جانا چاہیے کیونکہ اس طرح کی طنزیہ تنقید کے لیے سزا بھی ہو سکتی ہے اور پروگرام کے جس حصے میں یہ تنقید موجود ہے، اُسے بعد ازاں ہٹانا بھی پڑ سکتا ہے۔ بعد میں یہی ہوا بھی اور زیڈ ڈی ایف نے اپنے میڈیا سینٹر سے پروگرام کا یہ حصہ ہٹا بھی دیا۔ اس سارے پروگرام کا مقصد ہی جان بوجھ کر اشتعال دلانا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کولون کے میڈیا امور کے ایک وکیل مارکُس کومپا نے کہا کہ یہ ’قانون کی سوچی سمجھی خلاف ورزی‘ تھی۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ میڈیا پر طنز و مزاح کا یہ ایک زبردست پروگرام تھا۔

اس پروگرام کا ایک پس منظر بھی تھا۔ اس کا تعلق اے آر ڈی چینل پر چلنے والے طنزیہ پروگرام ’ایکسٹرا تھری‘ کے ساتھ جوڑا گیا تھا، جس میں ترکی میں حد سے زیادہ سنسر شپ اور اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کے رجحانات کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ اگرچہ جرمنی میں اس طرح کی طنزیہ تخلیقات کی اجازت ہے، پھر بھی ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جرمن سفیر کو طلب کیا اور اس ویڈیو کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔ کہیں ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد جرمن حکومت نے پبلک میں اس معاملے پر اظہارِ خیال کیا اور جرمنی میں اظہارِ رائے کی آزادی کا دفاع کیا۔

جرمنی میں طنزیہ تخلیقات کو کس حد تک جانے کی اجازت ہے؟

ژان بوہمر مان کی نظم کتنی ہی مبالغہ آمیز کیوں نہ سہی، اس کا مقصد کسی کی توہین کرنا نہیں بلکہ اس بات کو ہدفِ تنقید بنانا تھا کہ ترک سربراہِ مملکت ایردوآن نہ صرف اپنے ملک کے اندر پریس اور رائے کی آزادی کے سلسلے میں ایک آمرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں بلکہ وہ جرمنی میں بھی اس آزادی پر قدغنیں لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہی وہ چیز ہے، جو اس خاکے کو صحیح معنوں میں ایک خالص طنز کا رُوپ دیتی ہے۔ اسے صحافیوں اور قانونی ماہرین کے تربیتی پروگراموں میں بھی یہ بتانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ ایک طنزیہ تخلیق کس حد تک جا سکتی ہے۔ اس سے بھی آگے جا کر یہ طنزیہ نظم ہمیں یہ بھی دکھاتی ہے کہ جب ایسی کوئی تخلیق سماجی اور سیاسی زخموں کو نمایاں کرتی ہے تو وہ کتنی طاقتور ہو سکتی ہے۔ اس طرح کی طنز کو برداشت کرنا ہی کسی جمہوری معاشرے کی پہچان ہوتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید