ایرانی صدر روحانی کا دورہ پاکستان اور توقعات
23 مارچ 2016پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ایران کے مغرب کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد اس ملک کے ساتھ معاشی تعلقات مضبوط کرنے کے دروازے کھلے ہیں۔ ایرانی صدر جمعے اور ہفتے کے روز اسلام آباد میں ہوں گے اور اس دوران وہ علاقائی اور بین لاقوامی مسائل پر بات چیت کریں گے۔
اس سے پہلے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف مئی دو ہزار چودہ اور رواں برس جنوری میں تہران کے دورے کر چکے ہیں۔ جنوری میں ان کے دورے کا مقصد سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرانا تھا۔
سعودی عرب نے جنوری کے آغاز سے تہران حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کر رکھے ہیں اور اس کی وجہ ایرانی مظاہرین کی طرف سے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ تھا۔ یہ ایرانی مظاہرین سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو سزائے موت دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
پاکستان اور ایران نے طویل عرصے سے گیس پائپ لائن کا بھی ایک مشترکہ منصوبہ طے کر رکھا ہے لیکن یہ ابھی تک کامیابی کی طرف گامزن نہیں ہوا۔ ساڑھے سات ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی یہ گیس پائپ لائن ایران سے پاکستان لائی جانی ہے۔ اس کا باقاعدہ افتتاح مارچ دو ہزار تیرہ میں ہوا تھا لیکن اس منصوبے کو اس وقت دھچکا لگا، جب بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ پاکستان کو اپنی حدود کے اندر اس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے قرض چاہیے تھا اور کوئی بھی بین لاقوامی ادارہ یہ قرض دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
تہران حکومت اپنی طرف سے اٹھارہ سو کلومیٹر طویل یہ گیس پائپ لائن پہلے ہی تعمیر کر چکی ہے اور اسے ابھی پاکستانی شہر نواب شاہ تک لایا جانا ہے۔ دریں اثناء چین نے پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالر کی لاگت سے ایک اکنامک کوریڈور تعمیر کرنے کا آغاز کر دیا ہے اور اس منصوبے کے تحت اس گیس پائپ لائن پر بھی کام جاری ہے، جس کے تحت مستقبل میں ایرانی گیس پاکستان درآمد کی جا سکتی ہے۔
چین پاکستان میں نواب شاہ سے گوادر تک یہ پائپ لائن بچھائے گا اور اس کے بعد وہاں سے اسی کلومیٹر طویل ایرانی سرحد تک یہ پائپ لائن پاکستان کو خود تعمیر کرنا ہو گی۔