1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی حکومت کے خلاف ایران میں ہی جنگ لڑ رہے ہیں، جیش العدل

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ18 فروری 2014

ایران کے سرحدی اور بلوچ اکثریتی علاقوں میں متحرک شدت پسند تنظیم جیش العدل نے آج منگل 18 فروری کو ایک بیان میں ایرانی حکومت کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے وہ پاکستانی سرحدی علاقوں سے ایران پر حملے کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BB6p
تصویر: ISNA

ایرانی حکومت کی جانب سے سنی شدت پسند تنظیم جیش العدل کے خلاف پاکستانی حدود میں کارروائی کی حالیہ دھمکی نے پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک بار پھر خدشات کو جنم دیا ہے۔

شدت پسند عسکری تنظیم جیش العدل نے منگل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری کیے گئے اپنے تازہ بیان میں بھی یہ تردید کی ہے کہ وہ پاکستان سے ایران میں دراندازی کر رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جیش العدل ایرانی حکومت کے خلاف ایران میں جنگ لڑ رہی ہے اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیش العدل کے مطابق وہ ایران میں ایرانی بلوچوں کےحقوق کے لیے جنگ لڑ رہی ہے اورایرانی حکو متی اہلکار ائندہ بھی اس کا ہدف رہیں گے۔

ایرانی حکومت نے شدت پسند تنظیم جیش العدل کے خلاف پاکستانی حدود میں کارروائی کی دھمکی دی ہے
ایرانی حکومت نے شدت پسند تنظیم جیش العدل کے خلاف پاکستانی حدود میں کارروائی کی دھمکی دی ہےتصویر: BEHROUZ MEHRI/AFP/Getty Images

ایران میں جنداللہ کے بعد منظر عام پر آنے والی سنی شدت پسند تنظیم جیش العدل کی سرگرمیوں کا مرکز ایرانی میڈیا کے مطابق، بلوچ اکثریتی علاقے سیستان بلوچستان، نک شہر، چابہار ایران شہر، سرباز، زاہدان، سراواب اور خآش رہے ہیں۔ ایرانی بلوچوں کے حقوق کی دعویدار یہ تنظیم ایران کے اندر دیگر ایسی کئی پرتشدد کاروائیوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہی ہے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایران ماضی میں بھی پاکستانی حدود سے دراندازی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے، جس کی پاکستان کی طرف سے تردید کی جاتی رہی ہے۔ تاہم ایرانی وزیر داخلہ کے حالیہ بیان کو مبصرین نے غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا ہے۔ پاکستان کے دفاعی امور کے ایک سینیئر تجزیہ کار پرو فیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول پاکستان اور ایران کے دیرینہ تعلقات خطے میں پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک کو دراندازی کے بجائے سنجیدگی سے اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’’ایران، پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان اپنی سرحد کو محفوظ بنائے لیکن یہ تو دونوں ممالک کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور انہیں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔ بارڈر بہت بڑا ہے، اس لیے اس کا کنٹرول بہت مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر قانونی آمدورفت ہوتی رہتی ہے میرے خیال میں یہ مسائل مل بیٹھ کر ہی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘

ایران ماضی میں بھی پاکستانی حدود سے دراندازی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے
ایران ماضی میں بھی پاکستانی حدود سے دراندازی کے الزامات عائد کرتا رہا ہےتصویر: IRNA

سینیئر صحافی اور ایرانی امورکے تجزیہ کار فرمان رحمان کے مطابق پاکستان اور ایران کو خطے میں پائیدار امن کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنا ہو گی، کیونکہ دونوں ممالک میں جاری بلوچ مسلح بغاوت سے یہ مسائل جنم لے رہے ہیں: ’’دیکھیے ایران اور پاکستان کا شمار اس خطے کے دو اہم ترین ممالک میں کیا جاتا ہے اور ان دونوں ممالک میں پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان میں کچھ گروپ بغاوت کر رہے ہیں اور وہاں تواتر کے ساتھ حملے ہوتے رہے ہیں جو ان دونوں ممالک کے اندرونی معاملات ہیں اور انہیں اپنے طور پر ہی انہیں حل کرنا ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں بھی اسی عسکریت پسند گروپ کے ارکان نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں ایک حملے کے دوران 14 ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک اور چھ دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ