ایران میں کشیدگی برقرار
27 جون 2009گزشتہ روز امریکی صدر اور جرمن چانسلر کے درمیان ایران کے حوالے سے سوچ اور پالیسی میں اتفاقِ رائے سامنے آیا تھا۔ اِسی طرح یہ موضوع گروپ ایٹ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی توجہ کا مرکز رہا۔
اُدھر ایران کے اندر حکومت نے ہارنے والے صدارتی الیکشن کے اُمیدوار میر حسین موسوی کے قریبی حامیوں اور ساتھیوں کی بیرون ملک جانے کی کوششوں پر پرنگرانی کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
اِس عمل میں تازہ ترین یہ ہے کہ میر حسین موسوی کے انتخابی دفتر میں قائم میڈیا آفس کے سربراہ ابُو الفضل فتح کا کہنا ہے کہ یہ موسوی کی بنیادی پالیسی میں تبدیلی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ایسی حکومتی پابندیوں سے اُن جیسی سوچ کے افراد اپنے سیاسی نظریات کو تبدیل نہیں کریں گے۔
ابُو اُلفضل فتح کو صدارتی الیکشن میں اہم کردار ادا کرنے پر ایران سے باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ وہ برطانیہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ ابُو الفضل فتع کے ایران چھوڑنے پر پابندی کی سرکاری طور پر بھی تصدیق سامنے آ چکی ہے۔
متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد ایرانی حکومت نے عوام کو مظاہروں میں شرکت پر سخت نتائج کی دھمکی دے رکھی ہے۔
ہفتے کے روز بھی ایرانی دارالحکومت تہران کی گلیوں میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی جانب سے جلوس یا اجتماع کرنے کی کوشش ضرور کی گئی۔ اِن کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔ ایسے چھوٹے اجتماعات منتشر کرنے کے لئے سیکیورٹی حکام نے لاٹھی چارج اور آنسُو گیس کا استعمال کیا۔ مجموعی طور پر ہفتہ کے دِن تہران میں زندگی معمُول کے مطابق دیکھی گئی۔
ایرانی حکام نے میر حسین موسوی کو تہران میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ موسوی اِس کی ذمہ دار حکومت پر ڈالتے ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اِن مظاہروں میں کم از کم بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صدارتی الیکشن میں شکست سے دوچار میر حسین موسوی انتخابات کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری جانب ایران کے اعلیٰ قانون ساز ادارے شوریِٰ نگہبانِ اِس مطالبے کو رد کر چکی ہے اور اُس نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کو تسلیم کرنےسے انکار کردیا ہے۔
جمعہ کو امریکی صدر باراک اوباما نے ایرانی عوام کی جُرات کی تعریف کی تھی جب کہ سخت مؤقف کے ایرانی صد محمود احمدی نژاد نے امریکی صدر کو ایک بار پھر مشورہ دیا ہے کہ وہ ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔