1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں موبائل ایپس کے ذریعے فوٹو شیئرنگ کا نتیجہ جیل

عاطف توقیر14 دسمبر 2015

جسم پر ٹیٹو بنائے ایک شخص کی کم لباس پہنے مختلف خواتین کے ساتھ چند تصاویر ایران میں موبائل فوٹو شیئرنگ ایپلیکیشنز کے ذریعے ہر طرف پھیل گئیں اور نتیجہ اس شخص کے جیل جانے کی صورت میں برآمد ہوا۔

https://p.dw.com/p/1HN1P
Iran Bildergalerie KW 49 2013 Informationsministerium
تصویر: MEHR

واحد نامی اس نوجوان کی ان مختلف تصاویر میں ہر مرتبہ ایک سے زائد خواتین دکھائی دیں۔ ایران جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کے لیے طے کردہ ’ملبوساتی ضابطے‘ کی اس خلاف ورزی کی یہ کھلی خلاف ورزی تھی ہی مگر ساتھ ہی ساتھ 14 مختلف خواتین کے ساتھ ایسے لباس میں مختلف پوز بنا کر تصاویر اتروانا ایرانی معاشرے پر ایک ضرب بھی تصور کیا گیا۔

ایران میں انٹرنیٹ کے حوالے سے انتہائی سخت پابندیاں عائد ہیں، تاہم ایرانی انٹرنیٹ ویب سائٹس کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس شخص کا نام واحد ہے اور اب وہ جیل میں ہے۔

خواتین کی تصاویر، جن میں ان خواتین نے زیادہ تر منی اسکرٹس اور چھوٹی چولیاں پہن رکھی ہیں، اسمارٹ فونز کے ذریعے ایران بھر میں پھیل گئیں اور اس اسلامی جمہوریہ میں جیسے ایک طوفان پیدا ہو گیا۔ چند احباب ان تصاویر کے ساتھ واحد (جس کا خاندانی نام حکام نے اب تک ظاہر نہیں کیا) کے حوالے سے مختلف لطائف بھی یہاں وہاں بھیجے جانے لگے۔ کہا جا رہا ہے کہ زیرحراست واحد کو جلد ہی اپنے خلاف مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Picture-Teaser Frauen und Internet Persisch
ایران میں انٹرنیٹ پر خصوسی پابندیاں عائد ہیںتصویر: IRNA/Nmedia-Fotolia

اس معاملے کے بعد ایران میں اسمارٹ فونز کے استعمال اور آن لائن مواد شیئر کرنے کے موضوع پر ایک گمبھیر بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس شخص کی تصاویر کے ساتھ ساتھ افواہیں پیغام رسانی کے لیے استعمال کی جانے والی ایپلیکیشن ٹیلی گرام کے ذریعے ایران بھر میں پھیلتی چلی گئیں۔

بتایا گیا ہے کہ 30 سالہ واحد شمالی تہران کا رہائشی ہے اور زمین و مکانات کی خرید و فروخت کا کاروبارکرنے والا خاصا امیر شخص ہے، جب کہ اس کے پاس ایک لگژری کار اور ایک بڑا بنگلہ بھی ہے۔ کچھ میڈیا اداروں نے تو اسے ’ڈان خوآن‘ کے نام سے بھی پکارا، مگر اس معاملے نے اس وقت انتہائی سنجیدگی اختیار کر لی، جب اس نے ٹیلی گرام نامی ایپلیکیشن پر یہ کہ دیا کہ اس کا فون چوری ہو گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ خواتین اس کی بہنیں ہیں اور اس کی ذاتی زندگی میں دخل دیا جا رہا ہے۔ سائبر پولیس کے ہاتھوں گرفتار کر لیے جانے کے بعد ایک میڈیا ادارے پر معذرت خواہانہ انداز میں اس کا کہنا تھا، ’’یہ ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔‘‘

ایران میں سائبر پولیس ’غیراسلامی‘ مواد کو روکنے کے لیے زبردست اختیارات کا حامل ادارہ ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ میں 609 مردوں اور 114خواتین کو سائبر جرام کے الزامات میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان افراد پر ایران کے ’اقتصادی، اخلاقی اور سماجی‘ مفادات کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات ہیں۔